پارکر سولر پروب: ناسا کے خلائی جہاز نے سورج کی فضا میں سے گزر کر تاریخ رقم کر دی

  • جوناتھن ایموس
  • بی بی سی سائنس رپورٹر
سورج

،تصویر کا ذریعہNASA/JHU-APL

پارکر نامی خلائی جہاز نے تاریخ میں پہلی بار سورج کی بیرونی فضا میں سے گزر کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے اسے تاریخی موقع قرار دیا ہے۔

پارکر سولر پروب نے سورج کے گرد موجود خطے میں کچھ ہی دیر کے لیے غوطہ لگایا۔ اس خطے کو کورونا کہا جاتا ہے۔

خلائی جہاز نے ایسا اپریل میں کیا تھا مگر ڈیٹا کے تجزیے سے اب جا کر اس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس کام کے لیے پارکر کو بے انتہا گرمی اور الٹرا وائلٹ شعاعیں جھیلنی پڑیں مگر اس سے سائنسدانوں کو نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ ہمارا سورج کیسے کام کرتا ہے۔

ناسا کے سورج پر تحقیق کے ذمہ دار شعبے ہیلیوفزکس سائنس ڈویژن کی ڈائریکٹر نکولا فوکس کہتی ہیں: ’جس طرح چاند پر کھڑے ہونے سے سائنسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ یہ کیسے وجود میں آیا، ویسے ہی سورج کو چھونا انسانیت کے لیے بہت بڑا موقع ہے جس سے ہمیں ہمارے قریب ترین ستارے اور نظامِ شمسی پر اس کے اثرات کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوں گی۔‘

پارکر سولر پروب خلائی ادارے کا اب تک کا بنایا گیا سب سے 'جانباز' مشن ہے۔

تین سال قبل لانچ کیے گئے اس خلائی جہاز کا مقصد سورج کے سامنے سے بار بار اور قریب سے قریب تر ہو کر گزرنا ہے۔

اس خلائی جہاز کی رفتار حیران کُن حد تک تیز ہے۔ یہ پانچ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے اور حکمتِ عملی یہ ہے کہ سورج کی فضا میں فوراً داخل ہو کر فوراً باہر آئے، اور اس دوران گرمی سے بچانے والی اپنی موٹی ہیٹ شیلڈ کے پیچھے چھپ کر اپنے مختلف آلات کے ذریعے اعداد و شمار اکٹھا کرے۔

رواں سال 28 اپریل کو پارکر نے ایلفویئن نامی لکیر کو عبور کیا جو سورج کی بیرونی فضا کورونا کی باہری حد ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں عام طور پر سورج کی کششِ ثقل سے بندھا رہنے والا مواد اور مقناطیسی لہریں کششِ ثقل سے خود کو چھڑا کر خلا میں باہر نکل جاتی ہیں۔

،تصویر کا ذریعہS R HABBAL AND M DRUCKMÜLLER

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

پارکر نے ہمیں نظر آنے والی سورج کی سطح فوٹوسفیئر سے ایک کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر اوپر اس لکیر کو محسوس کیا۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے سٹوارٹ بیل کے مطابق خلائی جہاز کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانچ گھنٹوں کے دوران تین مرتبہ اس لکیر کے اوپر اور نیچے سے ہو کر گزرا۔

اُنھوں نے رپورٹرز کو بتایا: ’ہم نے صورتحال کو مکمل طور پر تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ کورونا کے اندر سورج کی مقناطیسی قوت بہت زیادہ تھی اور وہاں یہ ذرات کی نقل و حرکت پر غالب تھی۔ چنانچہ خلائی جہاز اس مواد سے گھرا ہوا تھا جو حقیقت میں سورج سے جڑا ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

محققین کو کورونا کہلانے والی سورج کی اس بیرونی فضا نے حیرت زدہ کیے رکھا ہے کیونکہ یہاں پر وقوع پذیر ہونے والی اکثر چیزوں کی اب تک وجہ سمجھ نہیں آ سکی ہے۔

ان میں سے ایک چیز خلافِ عقل شدید گرمی ہے۔ سورج کی سطح یعنی فوٹوسفیئر پر درجہ حرارت چھ ہزار ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہوتا ہے لیکن کورونا میں درجہ حرارت 10 لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اسی حصے میں برقی چارج رکھنے والے ذرات مثلاً الیکٹرونز، پروٹونز اور بھاری آئیونز کی رفتار اچانک آواز کی رفتار سے بھی تیز ہو جاتی ہے اور یہ تیز ہوا کی صورت دھار لیتے ہیں جسے سولر ونڈ کہا جاتا ہے۔ یہ صورتحال بھی سائنس دانوں کے لیے ایک معمہ ہے۔

جان ہاپکنز اپلائیڈ فزکس لیبارٹری کی نور رؤفی کے مطابق 'مسئلہ یہ ہے کہ سولر ونڈ کو جنم دینے والے مراحل کا نام و نشان سولر ونڈ کے کورونا سے زمین تک کے سفر کے دوران مٹ جاتا ہے۔ اسی لیے ہم نے پارکر کو اس پراسرار خطے میں بھیجا ہے تاکہ جان سکیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہِے۔'

جب آنے والے ہفتوں میں یہ خلائی جہاز کورونا کی اور گہرائی میں غوطے لگائے گا تو پارکر کی سائنس ٹیم کو اس حوالے سے مزید ڈیٹا ملے گا۔

سنہ 2025 میں اسے بتدریج فوٹوسفیئر سے 70 لاکھ کلومیٹر فاصلے تک پہنچ جانا چاہیے۔ پارکر اور سورج کا مشاہدہ کرنے والی دیگر رصدگاہوں سے حاصل ہونے والی معلومات کا زمین پر موجود تمام انسانوں پر براہِ راست اثر پڑے گا۔

سورج سے نکلنے والی بڑی مقناطیسی لہریں ہماری زمین کے مقناطیسی میدان کو ہلا کر رکھ سکتی ہیں۔ ایسا ہونے پر ہماری مواصلات معطل ہو سکتی ہیں، سیٹلائٹس آف لائن ہو سکتی ہیں اور بجلی کے گریڈز میں اچانک وولٹیج تیز ہو سکتا ہے۔

سائنسدان سورج کے ان مقناطیسی 'طوفانوں' کی پیش گوئی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پارکر کے ذریعے اُنھیں ایسا کرنے کے لیے نئی اور گراں قدر معلومات حاصل ہو سکیں گی۔

اس مشن کے تازہ ترین نتائج نیو اورلینز میں امریکن جیوفزیکل یونین کی فال میٹنگ میں پیش کیے جا رہے ہیں۔