’ریورس سوئنگ بے ایمانی نہیں فن ہے‘

،تصویر کا ذریعہALL SPORT/Getty Images
کرکٹ کی گیند کو ریورس سوئنگ کرنے میں مہارت رکھنے والے پاکستانی تیز گیند بازوں نے متفقہ طور پر اس فن کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریورس سوئنگ بال کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا 'ٹیمپرنگ' کیے بغیر بھی کی جاسکتی ہے اور جس کی وجہ سے حال ہیں میں آسٹریلیا کھلاڑیوں کو بڑی شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔
آسٹریلوی کپتان سٹیو سمتھ کو کپتانی چھوڑنا پڑی اور ڈیوڈ وارنر کے ہاتھ سے نائب کپتانی گئی اور اس کی وجہ جنوبی افریقہ کے خلاف کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں آسٹریلوی بلے باز کیمرن بنکروفٹ کی طرف سے بال ٹیمپرنگ کرنا تھی۔
بنکروفٹ میچ کے دوران میدان میں بال کے ایک حصے کی سطح کو کھردری کرنے کے لیے کاغذی ریگمال استعمال کرتے ہوئے پائے گئے تاکہ آسٹریلیوی گیند بازوں کو ریورس سوئنگ کرنے میں آسانی ہو اور جنوبی افریقہ کے بلے بازوں کو آؤٹ کیا جا سکے۔
کرکٹ آسٹریلیا نے اس واقعے پر سخت رد عمل اختیار کرتے ہوئے کپتان سٹیو سمتھ اور ڈیوڈ وارنر کے کرکٹ کھیلنے پر ایک سال کی پابندی لگا دی جب کہ بنکروفٹ کو نو ماہ کے لیے کھیل سے الگ کر دیا گیا۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر کرکٹ میں ریورس سوئنگ روشناس کرانے والے اور اس فن پر مہارت رکھنے والے تین عہد ساز گیند بازوں عمران خان، وسیم اکرم اور وقار یونس کی ایک مسکراتی ہوئی تصویر عام ہو گئی جس کے نیچے تحریر تھا کہ ’آسٹریلیوی اس فن میں ابھی بچے ہیں‘۔
کرکٹ کے سابق پاکستان کھلاڑی اور اپنے دور کے صف اول کے تیز رفتار گیند باز سرفراز نواز نے جن کو کرکٹ کی دنیا میں اس فن کا بانی بھی تصور کیا جاتا ہے اس خیال کو یکسر مسترد کر دیا کہ بال ٹیمپرنگ کے بغیر ریورس سوئنگ ممکن نہیں ہے۔
سرفراز نواز نے فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بالکل غلط بات ہے کہ ریورس سوئنگ کرنا 'چیٹنگ' یا بے ایمانی ہے۔ آپ بال سے چھیڑ چھاڑ کیے بغیر بھی ریورس سوئنگ کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ایک تو عام سوئنگ ہوتی ہے جو آپ نئی گیند سے بھی کرا لیتے ہیں اور دوسری ریورس سوئنگ ہے جو آپ صرف پرانی گیند سے حاصل کر سکتے ہیں اور یہ بات لیبارٹری میں بھی ثابت ہو گئی ہے کہ ریورس سوئنگ ایک سائنسی عمل ہے۔
سرفراز نواز نے 55 ٹیسٹ میچ کھیل کر 177 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ان کی زندگی کا یاد گار میچ آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں کھیلا گیا۔ وہ میچ تھا جس میں انھوں نے 86 رنز دے کر نو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا اور اسی میچ میں انھوں نے ایک موقعے پر 33 گیندوں میں ایک رن دے کر سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا۔
سرفراز نواز نے کہا کہ انھوں نے یہ فن عمران خان کو سکھایا جنھوں نے بعد میں وسیم اکرم اور وقار یونس کو اس سے متعارف کروایا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس زمانے میں ہر کوئی اسے بے ایمانی کہتا تھا لیکن جب انگلش بولروں نے ریورس سوئنگ کرنا شروع کی تھی تو اسے ایک فن کہا جانے لگا۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک آرٹ یا فن ہے اور رہے گا لیکن یہ حاصل کرنے کے لیے ٹیمپرنگ کرنا بے ایمانی ہے جیسا کے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ میں آسٹریلیوی کھلاڑیوں نے کیا اور جس کی انھیں جائز سزا ملی۔
سرفراز نے اس فن کی سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگر اپ روائتی یا عام سوئنگ کرنا چاہیں تو گیند کی سلائیوں کو سلپ کے زاویے پر رکھ کر بال کریں تو یہ پچ پر پڑ کر باہر کی طرف نکلے گی یا گھومے گی اور اگر آپ سلائیوں کو لیگ سائیڈ کی جانب رکھ کر بال کریں گے تو یہ اندر کی طرف آئے گی۔
سرفراز نواز نے کہا کہ ریورس سوئنگ اس عمل کا بالکل الٹ ہے۔
سرفراز نواز نے یہ فن عمران کو سکھایا لیکن انھوں نے اس میں اپنے استاد سے زیادہ مہارت حاصل کر لی اور ایک مرتبہ انھوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ وہ بوتل کے ڈھکن سے بال کو کھردرا بھی کیا کرتے تھے۔
1994 میں ایک ٹی انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ٹیمپرنگ کیے بغیر ٹیسٹ میں 372 وکٹیں حاصل کر پاتے تو ان کا جواب تھا کہ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ ہر کوئی جو بال کھرچتا ہے وہ وکٹیں حاصل کر سکتا ہے۔
عمران خان جو انگلش کاؤنٹی سسیکس کے طرف سے کھیلتے تھے ان کا کہنا تھا کہ ان کی کاؤنٹی ٹیم میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ وہ ریورس سوئنگ کر سکتے ہیں جبکہ کوئی دوسرا بالر یہ نہیں کر پاتا تھا۔
وسیم اکرم اور وقار یونس جو اپنے دور میں کرکٹ کی دنیا میں تیز رفتار گیند بازوں کی سب سے خطرناک جوڑی کے طور پر مشہور تھے انھوں نے یہ فن عمران سے حاصل کی۔
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے 1992 کے پاکستان کے دورے کے دوران انھوں نے انگریز بلے بازوں کے پرچخے اڑا کر رکھ دیے تھے لیکن اس وقت انھیں انگلش پریس سے بال ٹیمرپنگ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
وسیم اکرم نے بعد میں لنکاشائر کی طرف سے کرکٹ کھیلی جب کہ وقار گیلمورگن کی کاؤنٹی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوئے۔
وقار یونس نے کہا کہ وہ الزامات آج بھی تکلیف دہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ریورس سوئنگ بغیر ٹیمرپرنگ کے بھی کی جا سکتی ہے۔ ’آج کی کرکٹ میں بہت سے بالر یہ فن جانتے ہیں اور اپنی ٹیم کو کامیاب کراتے ہیں۔‘
وسیم اکرم جنہیں سوئنگ کا سلطان کہا جاتا ہے وہ کبھی بھی ٹیمپرنگ کرتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔ وقار کو ایک مرتبہ 2000 میں سری لنکا کے خلاف سیریز میں اس وجہ سے ایک میچ کی پابندی کی سزا ہوئی تھی۔
وقار نے کہا کہ بین الاقوامی کرکٹ میں صرف ایک طرح کی بال استعمال کی جانی چاہیے تاکہ یہ کھیل زیادہ منصفانہ بن سکے۔
انھوں نے کہا کہ کیوں مختلف ملکوں میں مختلف برانڈ کی گیندیں استعمال کی جاتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں ڈیوک گیند سب سے بہتر ہیں اور وہی استعمال کی جانی چاہیے۔