کیا ایشون، معین علی سے بہتر بولر نہیں؟
- سمیع چوہدری
- کرکٹ تجزیہ کار
انڈیا کے پاس یہ تاریخی موقع تھا کہ رینکنگ کی برتری کو عملی طور پہ ثابت کر کے دکھاتا کہ کیوں اس کی ٹیم دنیا کی نمبر ون ٹیم ہے۔ کوہلی کو چاہیے تھا کہ وہ کل کی شام اس خام خیالی کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیتے کہ بھارتی کرکٹر صرف گھر کے ہی شیر ہیں۔
ساؤتھیمپٹن ٹیسٹ میں ٹاس اور جو روٹ کی ایک بار پھر نہیں بن پائی۔ ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا کر بیٹھے کہ سارا ٹاپ آرڈر لڑھک سا گیا۔ جس وقت انگلینڈ 86 کے ٹیم ٹوٹل پہ چھ وکٹیں گنوا چکا تھا، تب وراٹ کوہلی کو تاریخ بدلتی دکھائی دے رہی تھی۔
لیکن پھر کرّن کی مزاحمت ان سپنوں کے کچھ ایسے آڑے آئی کہ جو گیم پلان پہلی چھ وکٹوں کے حصول میں کام آیا تھا، وہ اچانک پھیکا پڑ گیا اور کوہلی کچھ الگ، کچھ مختلف سوچتے سوچتے ہی مزید 160 رنز لٹا بیٹھے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کوہلی نے پہلے ہی روز ایسی واضح برتری حاصل کرنے کے بعد گیم کو ہاتھوں سے پھسلنے دیا۔
اگر پجارا ایسی مستحکم اننگز نہ کھیلتے تو شاید معین علی پہلی اننگز میں انڈیا کو برتری تک پہنچنے ہی نہ دیتے۔ جس مہارت سے معین علی نے انڈین بلے بازوں کے کمزور ’ڈیفنس‘ کو آشکار کیا اور انہیں ’اٹیک‘ پہ مجبور کیا، اس سے کوہلی کو گماں ہوا کہ شاید اب ساری گیم سپنرز کے ہاتھ میں ہے۔
اسی امید پہ تیسرے دن کوہلی نے ایشون سے توقعات کا ایک انبار وابستہ کر لیا۔ اس میں تو دو رائے ہیں ہی نہیں کہ ایشون بہرحال معین علی سے بہت بہتر بولر ہیں۔
رینکنگ میں بھی ایشون نمبر ون رہ چکے ہیں۔ گو کہ دونوں آف سپنر ہیں مگر معیار کا ایسا واضح فرق ہے کہ موازنے کو بھی پرستار توہین آمیزی پہ محمول کر سکتے ہیں۔
یہی یقین تھا کہ کوہلی نے تیسرے روز کی وکٹ پہ دن بھر ایشون کو آزمایا کہ اگر ان سے کئی درجے چھوٹا بولر معین علی سپن سپیشلسٹ بلے بازوں کے چھکے چھڑا سکتا ہے تو ایشون کیوں نہ سپن سے نابلد انگلش بلے بازوں کی خامیاں آشکار کر دے۔
یہ خیال بجائے خود کوئی غلط سٹریٹیجی نہیں تھا مگر جس انداز سے کوہلی نے اسے لاگو کرنے کی کوشش کی، اس پہ، ’حیراں ہوں روؤں سر کو کہ پیٹوں جگر کو میں‘
بھئی ایشون جیسے متنوع مزاج بولر کے تین درجن اوورز ایک ہی اینڈ سے آپ نے کیسے پھینکوا دیے۔ طرہ یہ کہ ایشون خود بھی کپتان کی طرح جوش میں آ کر ذرا تیز رفتار سے گیند پھینکتے رہے۔ کنفیوژن صرف یہ تھی کہ ایک دن پہلے کی وکٹ پہ معین علی تو اوپر تلے وکٹیں لے رہے تھے تو ایشون ایک دن مزید پرانی وکٹ پہ کچھ کیوں نہیں کر پا رہے۔
جوں جوں کنفیوژن بڑھتی گئی، ایشون کی رفتار اور بڑھتی گئی، اور کوہلی کے اوسان مزید خطا ہوتے گئے، اور یوں پہلے دن کی کوتاہیوں کے باوجود پہلی اننگز کی برتری حاصل کرنے والے کپتان کے ہاتھوں سے میچ پھسلتا چلا گیا۔
کوہلی ہی نہیں، ان سے بڑھ کر ان کے پسندیدہ کوچ روی شاستری کی یہ خواہش ہے کہ بھارت اوورسیز کنڈیشنز کی نمبر ون ٹیم بن کر ابھرے مگر ٹیم کی تیاریاں بھلے اچھی ہوں، اکثر عام سے سٹریٹیجک فیصلوں سے مار کھا جاتی ہے۔
رہی بات یہ کہ معین علی، ایشون سے بہتر بولر کیسے ثابت ہوئے تو اس کے لیے فقط ایک مثال ہی کافی رہے گی۔ سنہ 2016 کے دورۂ آسٹریلیا پہ نمبر ون بولر یاسر شاہ اپنے کریئر کے بدنما ترین اعداد و شمار لے کر واپس آئے مگر انہی کے مخالف نیتھن لیون، جو مہارت میں یاسر شاہ کا عشر عشیر بھی نہیں تھے، نہایت کامیاب ثابت ہوئے اور بالخصوص سپن سپیشلسٹس مصباح الحق اور یونس خان ان کے نشانے پہ رہے۔
فرق بس یہ تھا کہ یاسر شاہ صرف اپنی انگلیوں کے جادو سے ہی آسٹریلوی بلے بازوں کے طوطے اڑانا چاہتے تھے مگر نیتھن لیون نے ساتھ ساتھ وکٹ کے اضافی باونس کو بھی اتنی ہی اہمیت دی۔
ساوتھیمپٹن میں معین علی ایشون سے بہتر بولر اس لیے ثابت ہوئے کہ انھوں نے صرف انگلیوں کے جادو کا ہی نہیں، اپنے بازو کی رفتار کا بھی پورا دھیان رکھا۔
ایشون اور کوہلی صرف اس لیے ناکام ہوئے کہ کرکٹنگ مبادیات کو چھوڑ کر وہ صرف یہ ثابت کرنے پہ تلے رہے کہ ایشون معین علی سے بہتر بولر ہیں۔