ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ میں افغانستان اور انڈیا کا میچ جذباتیت اور فیک نیوز کے ذریعے کیسے متنازع بنایا گیا؟
- عبدالرشید شکور
- بی بی سی
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈین کرکٹ ٹیم بدھ کی شام افغانستان کے خلاف میدان میں اُتری تو سب کو معلوم تھا کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ سے ہارنے کے بعد انڈین ٹیم کے لیے ٹورنامنٹ میں موجود رہنے کے لیے صورتحال ’اب یا کبھی نہیں‘ والی ہو گئی۔
انڈیا کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ وہ افغانستان کی ٹیم کے خلاف غیر معمولی کارکردگی دکھائے۔
انڈیا نے ایسا ہی کیا اور اس ٹورنامنٹ میں پہلی بار کسی ٹیم نے دو سو رنز کا ہندسہ عبور کیا لیکن دوسری جانب بیشتر کرکٹ شائقین کے لیے یہ بات بھی حیران کن رہی کہ افغانستان کی ٹیم جس نے پاکستان کے خلاف میچ میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا، انڈیا کے خلاف سخت جان حریف ثابت نہ ہو سکی اور کسی بڑی مزاحمت کے بغیر ہار گئی۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ میچ کے فوراً بعد افغانستان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے اس کامیابی کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔
سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز اور عام مقامات پر ایک ایسی بحث شروع ہو گئی جس میں سب کا اصرار صرف اور صرف اسی بات پر تھا کہ یہ میچ مبینہ طور پر فکسڈ تھا اور افغانستان نے انڈیا کو ٹورنامنٹ سے باہر نہ ہونے کے لیے اپنی شکست کی صورت میں مدد فراہم کی ہے۔
مگر پاکستان کے نامور سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے پاکستانی عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ ایسا ٹرینڈ نہ چلائیں اور نہ ہی افغانستان کی ٹیم پر الزامات عائد کریں کیونکہ اُن کے مطابق یہ افغان ٹیم کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
شعیب اختر کا کہنا تھا کہ افغانستان کی ٹیم ابھی بنی ہے اور کمزور ٹیم ہے اور اُن کا مقابلہ ٹی 20 کی سب سے بڑی اور بہترین ٹیم یعنی انڈیا سے تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں بھی شکایت ہے کہ افغانستان جتنا اچھا کھیل سکتا تھا اُتنا نہیں کھیلا، لیکن اس کے باوجود انڈیا کی ٹیم بہت مضبوط ہے۔
شعیب اختر کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حالات کو دیکھنا چاہیے، اس طرح کے الزامات افغان ٹیم کے لیے بہت خطرہ ہو سکتے ہیں اور اُنھیں اپنے ملک میں ’شرعی‘ عدالتوں کا سامنا تک کرنا پڑ سکتا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ افغان ٹیم کے خلاف چلائے گئے اس ٹرینڈ میں سب سے نمایاں پاکستانی ہی نظر آئے ہیں۔
دلائل سے زیادہ جذباتیت اور فیک نیوز
اس میچ کے ختم ہونے کے بعد جس طرح کے تبصرے ہوئے ہیں ان میں دلائل اور منطق نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی، بلکہ ایک ہی جیسے تبصرے لوگ آگے بڑھاتے گئے ہیں جن میں جذباتیت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔
فیک نیوز کی یہ لہر کیسے اٹھی، اس کے نقطہ آغاز کے بارے میں یقین سے کہنا مشکل ہے لیکن ایک ویڈیو اور ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جو کچھ نظر آیا بظاہر اس کے بعد سے ہی یہ سلسلہ چل پڑا۔
سوشل میڈیا پر انڈیا اور افغانستان کے میچ کے ٹاس کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس کے بارے میں دعوے کیا گیا کہ اس ویڈیو میں سُنا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے ٹاس جیتنے کے بعد وراٹ کوہلی افغانستان کے کپتان محمد نبی کو پہلے بولنگ کرنے کا کہتے ہیں جس کے بعد محمد نبی کمنٹیٹر کو کہتے ہیں کہ جی ہاں ہم پہلے بولنگ کریں گے۔
تاہم صحافی فیضان لاکھانی نے یہ ویڈیو ٹویٹ کرنے والے ایک صارف کو یہ جواب ضرور دیا ہے کہ ’کیا متعدد کیمروں اور مائیک کے سامنے یہ اس طرح کریں گے؟ بھائی اب اتنی بھی اندھی نہیں مچی۔ درحقیقت یہ محمد نبی تھے جو وراٹ کوہلی کو اپنے فیصلے کے بارے میں بتا رہے تھے اور وراٹ نے کہا، او کے۔‘
تاہم کرکٹ کو کور کرنے والے صحافیوں کی جانب سے اس ویڈیو کی تردید کے باوجود یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل رہی۔
پھر ایک سکرین شاٹ گردش کرنے لگا جس میں افغانستان کرکٹ بورڈ کی مبینہ ٹویٹ تھی کہ ’ویل پیڈ انڈیا‘۔ بعدازاں اسی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بظاہر ’پیڈ‘ کی تصحیح کرتے ہوئے ’پلیڈ‘ لکھ دیا گیا۔
لیکن یہ بھی ایک فیک ٹوئٹر اکاؤنٹ تھا اور درحقیقت افغانستان کرکٹ بورڈ کے آفیشل اکاؤنٹ سے ایسا کوئی مواد ٹویٹ ہی نہیں کیا گیا۔
اب صارف حسن خان کی اس ہی تاویل کو دیکھ لیجیے کہ پاکستان سے ہارنے کے بعد افغان کھلاڑی روئے تھے لیکن انڈیا سے ہارنے کے بعد ہنس رہے تھے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ ’فکسڈ میچ‘ تھا!
ایک اور صارف اے جان کاکڑ نے لکھا جب آپ میچ ہارنے کے لیے تیار ہیں لیکن آئی پی ایل کا اپنا کنٹریکٹ گنوانے کے لیے نہیں۔
صحافی عمر انعام ایک قدم اور آگے بڑھے اور لکھا کہ انڈیا ورلڈ کپ 2019 میں پاکستان کو سیمی فائنلز میں پہنچنے سے روکنے کے لیے جان بوجھ کر انگلینڈ سے ہار گیا تھا اور آج افغانستان ایک فکسڈ میچ میں جان کر انڈیا سے ہار رہا ہے تاکہ وہ سیمی فائنلز میں پہنچ سکیں۔ یہ ہمیشہ انڈیا ہی ہے جو سپورٹس فکس کرتا ہے۔
سینیئر صحافی قمر احمد نے فیس بک پر کسی صارف کے جواب میں لکھا ہے کہ وہی لوگ ٹیموں اور کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ کے الزامات لگاتے ہیں جو شرطوں میں پیسے ہار جاتے ہیں۔ یہ جواریوں کی مخصوص سوچ بن چکی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فکسنگ نہیں ہوتی۔ سپاٹ فکسنگ عام ہے اور اس کی جانب وہی اشارہ کر سکتا ہے جو کھیل سمجھتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ انڈیا اور افغانستان کا میچ کلین میچ تھا۔
صحافی سہیل عمران نے ٹوئٹر پر پاکستانیوں کو مشورہ دیا ہے 'بھائی کوئی کیسے جیتا۔ چھوڑو اپنی جیت کو انجوائے کرو۔ مثبت سوچو اور ٹرافی کا خواب دیکھو۔ کوئی کتنا بھی غلط کر لے کچھ اچھا نہیں ہونے والا۔ جس نے اچھا کیا اس کو فالو کرو بس۔'
افغانستان اور انڈیا کے اس میچ کو مبینہ طور پر فکسڈ قرار دینے کی اس بحث میں سیاست دان بھی پیچھے نہیں رہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی سابق وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان اے آر وائے نیوز کے پروگرام میں موجود تھیں جہاں ان کے ساتھ سابق کرکٹرز یونس خان اور تنویر احمد بھی تھے۔
اس موقع پر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ 440 وولٹ کا جھٹکا جو پاکستان نے انڈیا کو لگایا تھا آج افغانستان نے انڈیا کو آکسیجن کا سلینڈر لگایا ہے، اور اُنھوں نے منصوبہ بندی کر کے ان کی اکھڑی ہوئی سانسیں بحال کی ہیں۔