پاکستانی ایسے گرے کہ سنبھل ہی نہ سکے

دوسری اننگز میں کپتان مصباح الحق اور یونس خان کی مزاحمت اور وکٹ کیپر سرفراز احمد کی جانب سے پہلی بار بیٹسمین کی حیثیت سے موجودگی کا احساس دلائے جانے کے نتیجے میں ٹیم اننگز کی شکست سے بچتے ہوئے میچ کو آخری دن لے جانے میں کامیاب تو ہوئی لیکن پانچویں دن بادل برسے نہ بولر گرجے اور سری لنکا نے ایک سو سنتیس کا ہدف آسانی سے حاصل کرلیا۔
پاکستانی ٹیم کی شکست کی بڑی وجہ ایک بار پھر بیٹسمین ہی بنے۔ پہلی اننگز میں مایوس کن کارکردگی کے بعد دوسری اننگز میں بھی یونس خان اور مصباح الحق کے سوا کسی نے ذمہ داری کا احساس نہیں کیا۔
یہی وہ دو بیٹسمین ہیں جنہوں نے ابوظہبی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں بھی سنچری بنائی تھی لیکن ساتھی بیٹسمینوں کی غیرذمہ داری نے کیے کرائے پر پانی پھیردیا تھا۔
مصباح الحق نے گزشتہ سال جو شاندار کارکردگی دکھائی تھی وہ اسےاس سال بھی جاری رکھنے کے عزائم ظاہر کرچکےہیں درحقیقت ہاری ہوئی ٹیم میں وہی ایسےبیٹسمین ہیں جو مستقل مزاجی سے رنز کیے جارہے ہیں ۔اکیلا چنا ہی بھاڑ جھونکے جارہا ہے۔
یونس خان بلاشبہ اسوقت بیٹنگ لائن میں ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
شکست کی ایک اور اہم وجہ ٹیم سلیکشن بھی ہے۔ ون ڈے کی پرفارمنس پر ٹیسٹ میچ کھلانے کے رجحان نے ٹیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
صرف ایک ون ڈے سیریز کی کارکردگی پر محمد حفیظ اور احمد شہزاد کو ٹیسٹ ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ابوظہبی ٹیسٹ میں بیٹنگ کے لیے سازگار بے جان وکٹ پر دونوں نے نصف سنچریاں بناکر خوشیاں منائی تھیں لیکن دبئی کی تیز وکٹ پر سوئنگ بولنگ پر یہ دونوں ایکسپوز ہوگئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد حفیظ کی پورے سال کی ٹیسٹ کارکردگی کہاں چھپادی گئی جس میں صرف ایک سو تین رنز شامل ہیں۔کیا اس مایوس کن کارکردگی پر وہ ٹیسٹ ٹیم میں شامل ہونے کے اہل تھے؟۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ محمد حفیظ کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے پر مجبور کیا جاتا لیکن اس کے بجائے ان پر ٹیسٹ ٹیم کے دروازے کھول دیے گئے۔
احمد شہزاد کو ٹیسٹ کیپ دینا کیا بہت ضروری تھا؟ پاکستان کرکٹ بورڈ کھلاڑیوں کا کریئر بنانے کے بجائے انہیں تباہ کرنے پر کیوں تلا بیٹھا ہے۔جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں خرم منظور اور شان مسعود کا اوپننگ پیئر اس دعوے کے ساتھ سامنے لایا گیا تھا کہ مستقبل پر نظر ہے لیکن صرف چار اننگز کے بعد ہی یہ جوڑی کسی معقول جواز کے بغیر توڑ دی گئی۔
جس طرح ون ڈے میں عمراکمل ابھی تک خود کو نہیں پہچان پائے ہیں اسی طرح ٹیسٹ کرکٹ میں اسد شفیق بھی اپنا دشمن آپ ہیں۔ان کی غیرمستقل مزاجی نے بیٹنگ لائن کو خاصا متاثر کیاہے۔
بولرز میں جنید خان پوری جان کے ساتھ بولنگ کررہے ہیں لیکن سعید اجمل کے غیرموثر ہونے کے سبب ٹیم مشکل میں آگئی ہے جو دو ٹیسٹ میچز میں صرف چار وکٹیں حاصل کرسکے ہیں۔
پاکستانی ٹیم نے یہ سیریز فیورٹ کی حیثیت سے شروع کی تھی لیکن اب وہ یہ سیریز برابر ہی کرسکتی ہے۔ شارجہ کی بیٹنگ وکٹ پر سری لنکا کی بیس وکٹیں حاصل کرنا اور پھراپنی وکٹیں بھی بچانا پاکستانی ٹیم کے لیے آسان نہ ہوگا۔
اس پوزیشن میں جبکہ کچھ بھی نہ بچا ہو پاکستانی ٹیم کو چلے ہوئے کارتوس پھینک کر تازہ بارود سے اسلحہ خانہ لیس کرنا ہوگا۔ احمد شہزاد کی جگہ شان مسعود کو اور ’ پروفیسر‛ کو باہر بٹھاکر اظہر علی کو ایک اور موقع دینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ راحت علی کی جگہ طلحہ بھی تیار بیٹھے ہیں اور سب سے بڑھ کر غیرموثر سعید اجمل کو ڈراپ کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ بھی ضروری ہوگیا ہے۔