کرکٹ میں بدعنوانی پر مودی کی خاموشی

بھارت میں اس بار عام انتخابات بدعنوانی کے مسئلے پر لڑے جا رہے ہیں۔ انتخابات کے نتائج 16 مئی کو آنے والے ہیں اور آئندہ آنے والے ممکنہ وزیر اعظم نریندر مودی کانگریس کی بدعنوانی کو اپنی تقریباً تمام ریلیوں میں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ ملک میں کرکٹ میں بدعنوانی کے مسئلے پر بھی بحث جاری ہے۔ اس ضمن میں بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) پر بھارت کی عدالت عظمیٰ مسلسل تنقیدی تبصرے کر رہی ہے۔ معاملہ صرف انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں فکسنگ یا سٹّے بازی کا ہی نہیں ہے بلکہ بورڈ کے دوسرے معاملات پر بھی سپریم کورٹ نے نکتہ چینی کی ہے۔
سابق کرکٹر نریندر مودی کی کرکٹ بورڈ پر خاموشی سے بہت حیران ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مودی جیسا بڑا نام بورڈ کے سربراہ سری نواسن کے خلاف بولتا تو اس کا اثر یقیناً پڑتا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مودی سنہ 2009 سے گجرات کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر ہیں اور براہِ راست بورڈ سے منسلک ہیں۔
بھارت کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے حیدرآباد کے سابق کرکٹر عباس علی بیگ نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: ’میں نہیں جانتا کہ مودی صاحب اور بورڈ کے باقی افسران کے درمیان کیسا تعلق ہے۔ وہ آپس میں دوست ہیں یا ان کے درمیان کسی دوسرے قسم کا رشتہ ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ جب بھی کوئی انتہائی اہم شخص کسی اہم مسئلے پر اپنی رائے رکھتا ہے تو اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ انھیں کرکٹ کے مسئلے پر بھی بولنا چاہیے تھا۔‘
گجرات کرکٹ ایسوسی ایشن پر قابض ہونے کے لیے انھوں نے اپنے سب سے قریبی شخص امت شاہ کو ذمہ داری دی تھی۔ شاہ نے کئی سالوں سے گجرات کرکٹ کے عہدے پر فائز کانگریس کے نرہری امین کا تختہ پلٹنے میں اپنا پورا تجربہ لگا دیا تھا۔ شاہ بھی ایسوسی ایشن کے نائب صدر ہیں۔
انڈین ٹیم کے سابق کپتان اجیت واڈیكر کہتے ہیں: ’بی سی سی آئی کے ساتھ ایسے اور کئی بڑے نام منسلک ہیں۔ سب مل کر معاملے کو سنبھال سکتے تھے لیکن میرا دل دكھتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ سپریم کورٹ بورڈ کی کارکردگی، کام کاج کے طریقے اور دیگر مسائل پر تبصرہ کر رہی ہے۔ یقیناً معاملے کو صحیح طریقے سے سنبھالا نہیں گیا۔ بی سی سی آئی کی ساکھ پر آنچ تو آئی ہے، اس میں کوئی دو آرا نہیں ہیں۔‘
تاہم بی سی سی آئی کو فکسنگ اور بدعنوانی کے معاملے پر سپریم کورٹ میں لے جانے والے بہار کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر آدتیہ ورما کا خیال ہے کہ ’گندگی صاف کرنے کے لیے کسی بڑے نام کی رائے ضروری نہیں ہے۔‘
ورما نے کہا: ’یہ صحیح ہے کہ بی سی سی آئی کی گندگی کو صاف کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس وقت انتخابات ہو رہے ہیں اور میں کسی قسم کا بیان دے کر پوری مہم کو بھٹكانا نہیں چاہتا۔ میرا خیال ہے کہ سپریم کورٹ یہ کام بخوبی کر رہی ہے۔‘
بی سی سی آئی کے پورے ڈھانچے کو دیکھیں تو سمجھ میں آ جائے گا کہ ٹی وی پر ایک دوسرے کو بے ایمان بتانے والی سیاسی پارٹیاں کرکٹ بورڈ میں کس طرح ایک خاندان کی طرح رہتی ہیں۔ اس کی بہت سی حیران کر دینے والی مثالیں ہیں۔
بی جے پی کے سینیئر لیڈر ارون جیٹلي امرتسر سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ وہ ہر روز کانگریس اور کانگریس صدر سونیا کے داماد کی بدعنوانی پر مائک کے سامنے کھل کر بول رہے ہیں۔ جب آئی پی ایل میں فکسنگ کا معاملہ سامنے آیا اور سری نواسن کے داماد ميپّن کو ممبئی پولیس نے سٹّے بازی میں گرفتار کیا اس وقت جیٹلي دہلی کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔
ان کے دورِ صدارت ہی میں کمپنی کے معاملات کے ’سيريئس فراڈ انویسٹیگیشن آفس‘ نے ڈی ڈی سی اے کے خلاف 100 کروڑ سے بھی زیادہ رقم کے گھپلے کی جانچ شروع کی تھی۔ سری نواسن کی قیادت والا بورڈ اس معاملے میں چپ رہا۔ سری نواسن کے لیے ان کی خاموشی قرض ادا کرنے جیسی تھی۔
سنہ 2012 میں جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے خلاف بی سی سی آئی کی جانب سے ملنے والے 25 کروڑ روپے کو غلط طریقے سے استعمال کرنے کا الزام لگا۔ بورڈ نے کبھی کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی تشویش کا اظہار ہی کیا کہ آج بھی کشمیر میں کرکٹ معیاری پچوں پر نہیں بلکہ میٹس پر ہی کیوں کھیلی جا رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ان دنوں کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری حیدرآباد کرکٹ ایسوسی ایشن کے ذمہ دار شیولال یادو کے ہاتھوں میں ہے۔ یادو کی قیادت والے بورڈ کے خلاف اسی سال سٹیڈیم کی تعمیر میں 100 کروڑ کی بدعنوانی کے الزامات پر اینٹی كرپشن بیورو نے نوٹس جاری کیا ہے جس میں 199 الزامات لگائے گئے ہیں۔
سری نواسن کے قریبی لوگوں میں سے ایک جھارکھنڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر امیتابھ چودھری کے خلاف بھی کروڑوں روپے کے گھپلے کا الزام ہے۔