میگا سکیل انجینیئرنگ: انسان ایسے منصوبے کیوں بناتے ہیں جن پر عملدرآمد ’ناممکن‘ ہوتا ہے؟
- اینڈرز سینڈبرگ
- بی بی سی فیوچر
سنہ 1603 میں ایک مسیحی راہب نے پوری زمین کو اٹھانے کی صلاحیت رکھنے والی ایک مشین ایجاد کی تھی۔ یہ مشین صرف چند رسیوں اور گیئرز (گراریوں) پر مشتمل تھی۔
کرسٹوف گرینبرگر نامی راہب ماضی میں مسیحی مصنفین کی علمِ ریاضی پر تحریر کردہ تمام کتابوں پر نظرِ ثانی کیا کرتے تھے۔ ان کے کام کی نوعیت کچھ ایسی ہی تھی جیسا کہ آج کل کسی جدید سائنسی جریدے کا کوئی ایڈیٹر ہو۔
وہ منکسر مزاج اور کام پر خوب توجہ دینے والے شخص تھے اور مسائل سلجھانے سے خود کو روک نہیں پاتے تھے۔
انھوں نے زمین کو اٹھانے کی دلیل یہ پیش کی کہ چونکہ 1:10 کے تناسب کی گراری کی مدد سے کوئی بھی انسان عام حالات سے دس گنا تک زیادہ وزن اٹھا سکتا ہے اس لیے اگر کسی ٹریڈ مل سے 24 گیئرز (گراریاں) باہمی طور پر منسلک کر دیے جائیں تو آہستہ آہستہ اس پورے کرہِ ارض کو اٹھایا جا سکتا ہے۔
موجودہ دور کے کسی بھی سائنسدان کی طرح، جو نظریے کو حقیقی زندگی میں رائج معمول سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، انھوں نے ضمنی تفصیلات کو چھوڑ دیا: ’میں یہ رسیاں نہیں بُنوں گا، نہ ہی میں پہیوں یا گراریوں کے لیے مٹیریل بناؤں گا اور نہ ہی وہ جگہ تجویز کروں گا جہاں اس مشین کو دنیا کو اٹھانے کے لیے نصب کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ وہ ضمنی مسائل ہیں جن کا حل تلاش کرنا میں دوسروں پر چھوڑ رہا ہوں۔‘
آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ گرینبرگر کی نظریاتی مشین حقیقت میں کیسی نظر آتی ہو گی۔
جب سے انسانوں کی علمِ ریاضی سے آشنائی ہوئی ہے تب سے اس مسیحی راہب کی طرح مستقبل کی سوچ رکھنے والے سکالرز نے انجینیئرنگ کی حدود کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ اُن کے دور میں مطلوبہ ٹیکنالوجی میسر تھی یا نہیں۔
صدیوں سے انھوں نے دنیا کو اٹھانے والی مشین بنانے، زمین کی سطح کو مکمل تبدیل کر دینے اور یہاں تک کہ کائنات کی دوبارہ ترتیبِ نو تک کے خواب دیکھے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کبھی کبھی میکرو انجینیئرنگ کہلانے والی اس طرح کی ’میگا سکیل انجینیئرنگ‘ کا مقصد ایسے منصوبے ترتیب دینا ہوتے ہیں جو زمین کو بدل کر رکھ دیں یا دیو قامت اور انتہائی بڑی جسامت کی اشیا بنائیں۔ مستقبل کے بارے میں اس طرح کے بڑے خواب ہمیں انسانی ذہن کی زرخیزی اور تخیل کے بارے میں کیا بتا سکتے ہیں؟
میگا سکیل انجینیئرنگ کی جڑیں قدیم یونان سے جا ملتی ہیں۔
ارشیمیدیس کئی باتوں کے لیے مشہور ہیں مگر ان کا سب سے بڑا دعویٰ یہ تھا کہ ’مجھے کھڑے ہونے کی جگہ دو، میں زمین کو ہلا سکتا ہوں۔‘ وہ لیورز کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کسی ایک نقطے پر فکس انتہائی طویل لیور بے تحاشہ قوت کے اخراج کا منبہ بن سکتا ہے۔
گرینبرگر کی گیئرز والی مشین کی طرح ارشیمیدیس کے بھی مشینی اصولوں کے بارے میں گہرے علم نے عملی امکان کی حدود سے دور موجود چیزوں کا تصور کرنا بہت دلفریب بنا دیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جولز ورنز کی سائنس فکشن کہانی میں خلائی جہاز 'کولمبیاڈ' کو لانچ کرنے کے لیے استعمال ہونے والی عظیم الجثہ توپ
تب سے لے کر اب تک جب بھی کسی سائنسی قانون کو عالمگیر حیثیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے، تب سے قدرتی طور پر اگلا قدم یہی ہوتا ہے کہ اس کی حدود کو دھکیل کر اس کے نظریاتی نتائج کے بارے میں جانا جائے۔
آئزیک نیوٹن نے یہ پایا کہ زمین کی کششِ کا اطلاق سیب اور چاند دونوں پر ہوتا ہے۔ اس لیے خلائی سفر کے حقیقت بننے سے ایک طویل عرصہ قبل انھوں نے یہ نشاندہی کی کہ اُصولی طور پر ایک طاقتور توپ کی جسامت بڑھا کر اس سے کسی سیٹلائٹ کو زمین کے مدار میں بھیجا جا سکتا ہے۔ اس تصور کو بعد میں سنہ 1865 میں سائنس فکشن کہانی فرام دی ارتھ ٹو دی مُون میں بھی دکھایا گیا۔
بیسویں صدی میں امریکہ اور چند دیگر مقامات پر کچھ گروہوں نے یہ جاننے کے لیے سنجیدہ کوششیں شروع کر دیں کہ کیا ایسی کوئی توپ کام کر سکتی ہے؟ یہ کوششیں ناکام ہوئیں اس لیے نیوٹن کی باتوں کو غلطی قرار دے کر ایک طرف رکھ دیا گیا۔ مگر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ خلائی سفر کا ہمارا موجودہ ذریعہ یعنی راکٹ بھی کسی زمانے میں غیر ممکنہ اور تصوراتی ہی سمجھا جاتا تھا۔
مشہور بات ہے کہ سنہ 1920 میں نیویارک ٹائمز نے اس تصور کے حامیوں کا مذاق اڑایا تھا۔ ٹائمز نے اپنے مضمون سے یہ اشارہ دیا تھا کہ ایسے لوگ کسی ہائی سکول کے طالبِ علم سے بھی کم فزکس کی معلومات رکھتے ہیں۔ سنہ 1969 میں اس اخبار نے اپالو 11 کے خلابازوں کی چاند کے لیے اڑان بھرنے کے ایک دن بعد ہلکے پھلکے انداز میں اپنا پچھلا مؤقف واپس لیا۔
پھر وقت کے ساتھ ساتھ خلا میں ہمارے یہ تصوراتی سفر ہمیں یہ سوال پوچھنے پر مجبور کر چکے ہیں کہ کیا خلا میں زمین کے مدار تک کوئی لفٹ بنائی جا سکتی ہے؟ اگر ہم کسی انتہائی مضبوط کیبل کے ساتھ کوئی متضاد وزن باندھ دیں (جو بمشکل ہی زمین پر ہو) تو فزکس کے حساب سے ایسا ممکن ہے کہ شمسی توانائی سے چلنی والی ایک خلائی لفٹ بنائی جا سکے۔
کیبل کے دوسرے سرے پر خلائی جہاز لگا کر انھیں کم سے کم ایندھن کا استعمال کرتے ہوئے زمین سے باہر دوسرے اجسام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ چاند یا مریخ تک لفٹ زیادہ قابلِ عمل اس لیے بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہاں کششِ ثقل ہے۔
اور ہمارے کائناتی عزائم کو مزید بڑھاتے ہوئے کئی لوگوں نے یہ تصور پیش کیا ہے کہ مستقبل کے انسان مریخ کی آب و ہوا میں تبدیلیاں لا کر اسے رہنے کے قابل بنا سکتے ہیں یا سورج کے گرد اس کی روشنی اکٹھی کرنے کے لیے سولر پینلز کا ایک ’ڈائسن سفیئر‘ کہلانے والا گھیرا بھی بنایا جا سکتا ہے۔
بہت طویل مدتی منصوبے کے طور پر شاید ہم سورج میں چند تبدیلیاں کر کے اسے زیادہ طویل عرصے تک چلنے کے قابل بنا سکیں، زمین کو ایک بڑے مدار میں دھکیل دیں، یا ستاروں کو ایک کہکشاں سے دوسری میں منتقل کر سکیں۔ یہ تمام تصورات موجودہ دور میں دُور کی کوڑی ہیں مگر ریاضی اور طبعیات (فزکس) انھیں مسترد نہیں کرتیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اٹلانٹروپا کا منصوبہ جس کے ذریعے دریاؤں کا رخ موڑنا اور سمندروں پر بند باندھنا شامل تھا
زمین کی از سرِ نو ڈیزائننگ
ہم اگر فی الحال اپنے سیارے کو ہی دیکھیں تو یہاں ہمارے میگا سکیل انجینیئرنگ کے خوابوں نے فرضی منصوبوں کے متعدد بلیوپرنٹس کو جنم دیا ہے جن میں سمندروں اور فضا میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں لانا شامل ہے۔
سنہ 1920 اور اس کے بعد سے ہرمن زورگل نے اٹلانٹروپا منصوبہ پیش کیا جس کے ذریعے آبنائے جبرالٹر پر ایک پن بجلی گھر کا ڈیم بنانا تھا۔ اس کے لیے بحیرہ روم کی سطح کو 200 میٹر تک گھٹا کر آبادی کے لیے ایک نئی زمین پیدا کرنا تھا۔
اس کے بعد ڈارڈینیلیز پر ایک اور ڈیم بنانا تھا جو بحرِ اسود کو روکے رکھتا اور پہلے ڈیم کی مدد کرتا۔ اس کے بعد اٹلی کے علاقے سسلی اور تیونس کے درمیان ایک اور ڈیم بنایا جاتا تاکہ بحیرہ روم کے اندرونی حصے کی سطح مزید گھٹائی جائے، سوئز کینال کو لاکس کے ذریعے طویل کیا جائے اور کافی حد تک کانگو دریا کا رخ موڑا جائے تاکہ وہ چاڈ جھیل کے گرد علاقے کو دوبارہ بھر دے جس سے صحرائے صحارا کی آبیاری ممکن ہو سکے۔
اگر آج اس منصوبے کو سیاسی حمایت حاصل ہو تب بھی ماحولیاتی حوالے سے موجود تشویش ایسے کسی بھی منصوبے پر کام نہیں ہونے دے گی، پر اگر عزم اور پیسہ ہوتا تو شاید اس کی کوشش ضرور کی گئی ہوتی۔
اس منصوبے کا ایک جدید جانشین بھی ہے جو کسی سنجیدہ منصوبے سے زیادہ ایک وارننگ کی حیثیت رکھتا ہے (مگر پھر بھی اس پر عرق ریزی سے کام کیا گیا ہے)۔ یہ منصوبہ ہے کہ سمندروں کی بڑھتی ہوئی سطح کو روکنے کے لیے سکاٹ لینڈ، ناروے، فرانس اور برطانیہ کے درمیان بحیرہ شمالی پر بند باندھ دیا جائے۔
اور سنہ 1957 سے 1977 کے درمیان امریکہ نے پراجیکٹ پلوشیئر نامی منصوبہ بنایا تھا جس کا مقصد ایٹمی دھماکوں کی ایسی ٹیکنالوجی بنانا تھا جو بڑے پیمانے پر پُرامن تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکے۔ ایسا ہی ایک پروگرام سوویت یونین میں بھی موجود تھا۔
ان تصورات میں یہ بھی شامل تھا کہ ایٹمی دھماکوں کا استعمال کرتے ہوئے پاناما کینال کو چوڑا کیا جائے، مصنوعی بندرگاہیں کھودی جائیں، پہاڑی سلسلوں کو کاٹ کر سڑکیں نکالی جائیں، یا زیرِ زمین موجود تیل اور گیس کے ذخیروں کو متحرک کیا جائے۔ مگر شاید یہ حیرانی کی بات نہ ہو کہ اس طرح کے نیم تابکار منصوبوں میں کبھی زیادہ دلچسپی نہیں لی گئی۔
مگر جیو انجینیئرنگ زمین پر ایسی تبدیلی لانے والا منصوبہ ہے جس پر اب سنجیدگی سے غور کیا جاتا ہے۔ اس میں ماحولیاتی نظام میں ایسے مداخلت کی جائے تاکہ سورج کی زمین پر آنے والی روشنی کو کم کیا جا سکے (چاہے یہ سمندری پانی سے بادلوں کو سفید کر کے ہو، ہماری فضا کی سٹریٹوسفیئر تہہ میں ایروسول کیمیکل شامل کر کے ہو، یا پھر خلا میں ایک سائبان بنا کر ہو) یا پھر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جوڑا جائے (چورا کیے گئے اولیوائن کا استعمال کر کے، کاربن جذب کرنے والے سمندری پودوں کی پیداوار بڑھا کر، یا پھر اسے زیرِ زمین منتقل کر کے۔
یہ ممکن نظر آتا ہے اور شاید ضروری بھی بن جائے، مگر سورج کی روشنی کو کنٹرول کرنا واضح طور پر ایک خطرناک تصور ہے۔
انسانوں کی تعمیر کردہ سٹرکیں اور شہر خلا سے بھی نظر آتے ہیں
تفریح اور انسانیت دونوں کی خاطر
مگر ایسی سوچ کے پیچھے محرکات کیا ہوتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے کہ بس کاغذ پر منصوبے بنا کر خود کو خدا سمجھنا کوئی دلچسپ کام ہے۔
کئی کیسز میں یہ ’زیادہ ہی بہتر ہے‘ کی منطق ہوتی ہے: اگر زیادہ زرعی زمین ہونا اچھا ہے، تو کیوں نہ زیادہ سے زیادہ حاصل کر لی جائے؟ اگر توانائی قیمتی ہے، تو ہم اپنے پاس موجود ٹیکنالوجی سے کیسے زیادہ سے زیادہ توانائی جمع کر سکتے ہیں؟ اس سے ہمیں اس حوالے سے اہم باتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری حدود کیا ہیں اور ہم اگر واقعی چاہیں تو کتنا کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔
مقصد یہ پیشگوئی کرنا نہیں ہے کہ ’کیسے‘ یا ’کب‘، بلکہ یہ زیادہ تر یہ جاننے کے لیے ہوتا ہے کہ کیا فطرت کے قوانین رکاوٹ تو نہیں؟ اس سے ہمیں ناممکن کو کم امکان کی حامل چیزوں سے الگ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
میگا سکیل انجینیئرنگ کے کئی منصوبے اپنے بنانے والوں کی نظر میں بھی خیالی پلاؤ ہی ہوتے ہیں۔ زورگل کا خیال تھا کہ اٹلانٹروپا توانائی، زرعی زمین اور بہتر آب و ہوا فراہم کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ یورپ اور افریقہ کو قریب لانے میں بھی مدد دے گا۔ روسی فلسفی نکولائی فیدوروف نے بعد میں موسمیاتی کنٹرول کو اپنے ’کاسمسٹ پروگرام‘ کے پہلے قدم کے طور پر متعارف کروایا۔
اس پروگرام کا مقصد انسانیت کو (اور بعد میں خلا اور لافانیت) کو متحد کرنا تھا۔
بات یہ ہے کہ کسی بڑے مقصد کی جانب مل کر کام کیا جائے۔ یہ منصوبے زمین کو اٹھانے سے زیادہ انسانیت کو اٹھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان خوابوں پر ہنسا اور انھیں ناقابلِ عمل خیالی جنت قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر واقعتاً زمین ایک ایسی مشین سے گھری ہوئی ہے جو ہر سیکنڈ میں کئی پیٹابائٹ ڈیٹا منتقل کرتی ہے، ایگزابائٹس کے حساب سے سٹور کرتی ہے، اور آپ شاید اسے اس وقت استعمال بھی کر رہے ہیں (انٹرنیٹ)۔
ایک ایسی مشین ہے جو ایک فٹ بال کے میدان سے زیادہ بڑی ہے، رائفل کی گولی سے زیادہ تیز ہے، اور ہمارے سروں کے اوپر زمین کے مدار میں گردش کر رہی ہے (بین الاقوامی خلائی سٹیشن)۔
اور یورپ میں ایک اور مشین ہے جس کا قُطر 27 کلومیٹر ہے اور یہ توانائی کو مادے میں تبدیل کرتی ہے (لارج ہیڈرون کولائیڈر)۔ تصور کریں کہ نیوٹن اور ارشیمیدیس نے ان مشینوں سے کیا کچھ تصور کر لیا ہوتا۔
ناسا کا پارکر خلائی جہاز سورج کے قریب ترین پہنچنے والی انسان کی بنائی گئی واحد چیز ہے
سچ تو یہ ہے کہ ہم میگا سکیل تعیمرات کے درمیان رہ رہے ہیں جن پر ہم شاید ہی کبھی غور کرتے ہیں۔ ہمارے ماحول میں بڑے پیمانے پر کی گئی ایسی بہت سی انجینیئرنگ ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی۔
نیدرلینڈز اور یہاں تک کہ برطانیہ میں لنکن شائر، کیمبرج شائر اور نورفوک کے کئی علاقے سمندر سے حاصل کیے گئے ہیں۔ ایمازون کے برساتی جنگلات اب اتنے شاندار نہیں رہے جتنے کہ پہلے کبھی تصور کیے جاتے تھے: یہاں ہزاروں سالوں تک کاشتکاری کی جاتی رہی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ٹیرس اور جدید بڑے شہر ایسی انجینیئرنگ ہے جو زمین کا چہرہ بدل دیتی ہے۔ کبھی کبھی یہ زبردست منصوبے کے تحت ہوتا ہے، کبھی نہیں۔
یہ منصوبے کام کب کرتے ہیں؟
بڑے منصوبوں کا جائزہ لیا جائے تو عام طور پر ان میں لاگت میں اضافے، منصوبہ بندی کی خامیاں، اور پراجیکٹ کی خراب انتظام کاری کے مسائل نظر آتے ہیں۔ اگر ہم اس کام میں اتنے ہی برے ہیں تو ہم کچھ پراجیکٹس میں کامیاب کیسے ہو جاتے ہیں؟
اگر ہم اس میگا سکیل انجینیئرنگ پر غور کریں جو کہ ہو چکی ہے، یعنی جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ علاقوں میں پہاڑوں میں ہموار سطح بنا کر کاشتکاری کرنا (ٹیرسنگ)، نیدرلینڈز میں زمین کو سمندر سے حاصل کرنا، امریکہ میں انٹرسٹیٹ ہائی وے سسٹم، یا انٹرنیٹ سب میں ہی ایسے پراجیکٹس شامل ہیں جن پر مرحلہ وار عملدرآمد کیا جا سکتا ہے، جہاں کام رک سکتا ہے اور تجربے سے کچھ سیکھنے کے بعد دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے، اور جہاں سسٹم ہر پُرزے کے بالکل ٹھیک کام کرنے پر منحصر نہیں ہے۔
ان کی دیکھ بھال کی جا سکتی ہے اور عام طور پر یہ قابلِ فہم ہے کہ اس میں شامل لوگ اپنے گھروں اور سرورز کی دیکھ بھال کیا کریں۔
یہ کاغذوں پر موجود زبردست منصوبوں سے کافی مختلف ہے جنھیں ایک ہی ذہن رکھنے والے افراد بناتے ہیں۔ مگر بڑے پیمانے پر بننے والے کئی پراجیکٹس پہلی نظر سے زیادہ ٹکڑوں میں بٹے ہوئے اور قابلِ عمل ہوتے ہیں۔ مسئلہ جسامت کا یا پیمانے کا نہیں بلکہ اس رابطے اور ہم آہنگی کا ہے جو اس میں مصروفِ عمل ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر ڈائسن سفیئر کو دیکھیں۔ یہ بہت دور کی بات لگتی ہے مگر ایک طرح سے ہم نے سورج کو پہلے ہی سولر کلیکٹرز سے گھیرنا شروع کر دیا ہے اور یہ اس کے مدار میں سیٹلائٹس چھوڑ کر ہو رہا ہے۔ اگر ہم چند لاکھ سال تک ایسے ہی چلتے رہیں تو ایک ڈائسن سفیئر آرام سے بن سکتا ہے۔
دنیا کو بہتر بنانے کے لیے بنائے گئے زبردست منصوبے اُن منصوبوں سے کمزور ہوتے ہیں جو ٹکڑوں میں بٹے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ دیکھنے کے لیے وژن کی ضرورت ہے کہ کیا ممکن ہو سکتا ہے ('ہاں ٹھیک ہے کہ خلا تک لفٹ ابھی نہیں بنا سکتے، مگر کبھی تو بنا سکیں گے') اور اُن بڑی سمتوں کے بارے میں سوچنا جہاں ہم جانا چاہتے ہیں، یعنی پائیدار ترقی، خلا، خوشحالی اور حفاظت۔
خیالی جنتوں کو شاید کاغذ پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ آج چیزوں کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم تصورات انسانی تاریخ کے کسی بھی دور سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔
ہمارے پاس شاید دنیا کو اٹھانے کی ٹیکنالوجی موجود نہیں ہو، لیکن ارشیمیدیس یہ جان کر خوش ہوتے کہ ہمارے پاس اب کہیں زیادہ لیورز موجود ہیں۔
ڈاکٹر اینڈرز سینڈبرگ یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے فیوچر آف ہیومینیٹی انسٹیٹیوٹ میں محقق ہیں۔ انھیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @anderssandberg