بنگلہ دیش: قدرتی حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے والا ایک مضبوط ملک
- عائشہ امتیاز
- بی بی سی ٹریول
بنگلہ دیش کے شمال مشرقی شہر سلہٹ کو چائے کے سرسبز باغات کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن یہاں وقت پر سکول پہنچنے کے لیے بچوں کا محض صبح سویرے بیدار ہونا کافی نہیں۔
کارڈف یونیورسٹی میں انجنیئرنگ کے پروفیسر ڈاکٹر منجور مرشد بنگلہ دیش میں ہی پلے بڑھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے یاد ہے کہ ہم پُل پار کیا کرتے تھے اور ہر دوسرے سال پل کو پانی بہا لے جاتا تھا۔ ہمیں (گاؤں کے بچوں کو) اس کی عادت تھی۔ ہم کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈ لیتے تھے۔‘
سکول کا راستہ تبدیل کرنے سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ کتنے آرام سے اس بات کا اقرار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مرشد کی زندگی کا یہ تجربہ کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ یہاں کی روایت ہے۔ سلہٹ کا جغرافیہ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
ڈاکٹر ڈیوڈ لڈن نیو یارک یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور ایشین سٹڈیز کی ایسوسی ایشن کے سابق صدر ہیں۔ وہ سنہ 2003 میں شائع والے ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ ’سلہٹ ایک زمین کا ٹکرا ہے جو دریائے سرما پر تیر رہا ہے۔‘ اس مقالے میں قدرتی طور پر اپنی جگہ تبدیل کرنے والی جگہوں کا ذکر کیا گیا تھا۔
’ارضیاتی پرتوں میں تبدیلی ان پہاڑی علاقوں کو بلند کر رہی ہے اور دریا میں سیلاب کا باعث بننے والے گڑھے مزید نیچے جا رہے ہیں۔ زلزلوں سے پانی کے طے شدہ راستے غیر مستحکم ہو جاتے ہیں۔‘
لیکن درحقیقت بنگلہ دیش بطور ملک قدرتی طور پر اپنی جگہ تبدیل کر رہا ہے۔ اس کے جغرافیے میں دنیا میں سب سے منفرد پانی کے نیٹ ورکس میں سے ایک پایا جاتا ہے۔ یہ علاقہ دریاؤں کی حرکت کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ براہم پترا، جمنا، پدما (گنگا) اور میگھنا دریاؤں کے بہنے سے ریت جمع ہوتی رہی اور یہ علاقہ بنا۔
ملک میں تقریباً 80 فیصد حصہ سیلاب سے متاثر ہونے والے میدانی علاقوں پر مشتمل ہے۔ بھاشن چار نامی جزیرہ بھی اسی طرح بنا۔ اس متنازع جگہ پر اب ہزاروں بے گھر روہنگیا پناہ گزین رہتے ہیں۔ یہ جزیرہ گذشتہ 20 برسوں کے دوران ہمالیہ سے دریائے میگھنا کے ساتھ بڑی مقدار میں بہہ کر آنے والی ریت سے وجود میں آیا۔
ملک میں پارلیمان کی عمارت جاتیہ سنسد کے تین اطراف مصنوعی جھیل تعمیر کی گئی ہے جو ملک میں دریاؤں کی خوبصورتی، ان کی تخلیقی اور تباہ کن طاقتوں کی علامت ہے۔ خوندکر نیاز رحمان کے مطابق اسے 20ویں صدی کی سب سے عظیم تعمیرات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہ ملک کی ثقافتی علامت بھی ہے۔
خوندکر نیاز رحمان بنگلہ دیش کی حکومت اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور انھوں نے شہری و دیہی منصوبہ بندی پر کام کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں پانی کو ایک مقدس اور پاک کرنے والی چیز سمجھا جاتا ہے۔ پانی مسلمانوں کو وضو کے ذریعے پاک کرتا ہے۔ اگر آپ ہندو ہیں تو آپ کے گھر گنگا کا پانی چھڑکا جاتا ہے۔ بدھ مت کے پیروکار اپنی عبادت کے دوران ایک پُل یا پانی کے چشمے کو پار کرتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ملک کی اعلیٰ قانون ساز اسمبلی تک پہنچنے کے لیے پانی کو پار کرنا بھی اسی طرح مقدس سمجھا جاتا ہے۔
اس چھوٹے مگر گنجان آباد ملک میں پانی اور قدرت کو زندگی سے دور نہیں رکھا جاسکتا۔ رحمان نے مجھے تاکید کی کہ ’مون سون کے دوران اگر آپ کا طیارہ بنگلہ دیش کے اوپر سے گزرے تو آپ کھڑکی سے باہر ضرور دیکھیں۔‘
’آپ کو یہ نہیں دکھائی دے گا کہ یہاں دریا زمین کو کاٹ رہے ہیں۔ ہمارا ملک دریاؤں کے درمیان ایک خلا ہے۔‘
اور ایسا لگتا ہے کہ زندگی اسی خلا میں قدرتی آفات کے درمیان بسر کی جاتی ہے۔
کچھ اندازوں کے مطابق گذشتہ تین دہائیوں کے دوران بنگلہ دیش نے 200 سے زیادہ قدرتی آفات کا مقابلہ کیا ہے۔ خلیجِ بنگال کے تکونی سرے پر واقع اس ملک کو ہمیشہ نہ صرف سمندری طوفانوں اور سیلابوں کا خطرہ رہتا ہے، بلکہ شہروں کی جانب ہجرت کی وجہ سے اس گنجان آباد ملک کو زیادہ مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔
کلائمیٹ چینج اسے بری طرح متاثر کر سکتی ہے کیونکہ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے یہاں کبھی خشک سالی ہو جاتی ہے اور کبھی اچانک موسلا دھار بارشیں۔ زلزلوں کے دوران اس کے میدانی علاقوں میں سیلابی زمین کے اندر پانی جمع ہو سکتا ہے اور بنگلہ دیش میں زراعت اور پینے کے پانی کو نمکیات کے اضافے کے شدید خطرے کا بھی سامنا ہے۔ یہ خطرہ بنگلہ دیش کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن سکتا ہے۔
یہاں آنے والے سیاحوں کو بہتے پانیوں کے ایک طویل سلسلے کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے جو بعض اوقات لوگوں کے لیے آمد و رفت کے بنیادی ذرائع کا کام دیتا ہے۔ ان پانیوں میں آپ کو اکثر جدید کشتیوں اور پیڈل سے چلنے والے ان قدیم سٹیمرز کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے جسے مقامی لوگ راکٹ کہتے ہیں۔
سنہ 2020 میں جب یہاں سیلاب آیا تو ملک کا تقریباً 40 فیصد حصہ زیرِ آب آ گیا اور 15 لاکھ بنگلہ دیشی بے گھر ہو گئے۔ یہ سیلاب مئی میں آنے والے ایک بڑے سمندری طوفان کے ساتھ ساتھ آیا، اور ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش کو اس سے 13 اعشاریہ دو ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے کریگرام کے ضلعے میں متاثرین کی امداد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اے ایف اے ڈی کی سربراہ سعیدہ یاسمین کہتی ہیں کہ ’یہ پانچواں موقع تھا جب یہاں کے لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا تھا۔‘
لیکن اس کے باوجود یہاں لوگوں نے خود کو دوبارہ کھڑا کر لیا۔ یہ لوگ بے گھر ضرور ہوئے لیکن ناامید نہیں۔ لگتا ہے کہ بنگلہ دیشی یہ تسلیم کرتے ہیں، بلکہ شاید اس بات کے معترف ہیں کہ قدرت پیچیدہ ہے مگر اس کے اچھے برے دونوں رخ ہیں۔
قدرتی آفات کے ساتھ ہم آہنگی میں رہنا بنگلہ دیش کے لوگوں نے سیکھ لیا ہے اور یہاں آنے والے سیاح وہ بھٹیالی لوک گیت سن کر حیران ہو جائیں جن میں دریا کے ساتھ مقامی لوگوں کے رومان اور اسی دریا سے درپیش خطرات کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ ایک مشہور لوک گیت کے بول کچھ ایسے ہیں کہ ’کشتی کو بہت احتیاط سے چلا ماجھی، دریا کی کوئی حد نہیں ہے۔‘
نیاز رحمان کہتے ہیں کہ ’قدرتی آفات ہمیشہ انسان ہی لاتے ہیں۔ آفات کبھی بھی قدرت کی طرف سے نہیں آتیں۔ ہم خود ہی قدرت کو سمجھے بغیر اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور کوئی غلط حرکت کر بیٹھتے ہیں، اور پھر الزام قدرت کو دیتے ہیں۔
اب تک سات لاکھ چالیس ہزار سے زیاد روہنگیا مسلمان نقکل مکانی کر کے بنگلہ دیش آ چکے ہیں
’لگتا ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ چیز لوگوں کی گھٹی میں شامل ہے کہ وہ قدرت کی بے پناہ طاقت اور انسان کی اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسے قدرت کی مرضی کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر زندہ رہنا ہے۔‘
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں چونکہ آپ اپنی زمین کے بارے میں کوئی پیشنگوئی نہیں کر سکتے اس لیے بنگلہ دیشیوں میں آب و ہوا میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے۔
عالمی بینک سے منسلک ڈاکٹر شفیع الاعظم احمد کے بقول اس حوالے سے ’میرا مفروضہ بڑا عجیب و غریب ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کی نفسیات اور ان کے قومی مزاج کا تعین ان کا جغرافیہ کرتا ہے۔‘
’جب زیر زمین سیلابی پانی سے کسی دریا کا ایک کنارہ تھرتھرانے لگتا ہے تو دوسرے کنارے پر زمین کا ایک اور ٹکڑا ابھر آتا ہے۔ اور پھر بہت جلد ہی نئی جگہ پر نباتات اور جنگلی حیات ایک نئے جذبے سے پھلنا پھولنا شروع کر دیتی ہے۔ اور انسان بھی یہی کرتے ہیں۔ آپ طاقتور دریاؤں سے لڑ نہیں سکتے لیکن آپ خود میں لچک پیدا کر کے قدرت کی غیر یقینیوں کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔‘
اس کا تجربہ مجھے اس وقت بھی ہوا جب میں نے 2020 کے سیلاب کے بعد ڈھاکہ کی ایک رہائشی رنیتا رضوانہ کو فون کیا۔ میں خود کو تیار کر رہی تھی کہ وہ شاید بہت غمزدہ ہوں گی، لیکن انھوں نے بڑے باوقار انداز میں بات کی۔ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی کیونکہ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شاید بات کرتےہوئے مسکرا بھی رہی تھیں۔
وہ بولیں ’میرے لوگ ہمت والے ہیں۔ دیہات میں رہنے والے پل بنا لیتے ہیں تاکہ وہ ملک کے بڑے علاقوں سے جُڑے رہیں۔ وہ فصلوں کے ڈنٹھل اور مویشیوں کے چارے کی گانٹھوں کی مدد سے پل بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح ان کے پاس بہت سے بانس موجود ہوتے ہیں جن سے وہ کسی اونچی جگہ پر نئے گھر بنا لیتے ہیں۔‘
لکڑی اور بانسوں کے بنے ہوئے اس قسم کے لچکدار اور بدلتے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے والے گھر بنگلہ دیش میں جا بجا نظر آتے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ اس ملک میں زندگی ایک مائع جیسی ہے۔
بعض اوقات اس قسم کے گھر برسات کے موسم جیسی قدرتی آفت سے ہونے والی تباہی کے بعد بنائے جاتے ہیں۔ ان دنوں میں گھروں کی تعمیر کے لیے درکار ساز و سامان کشتیوں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ان گھروں کے قریب چھوٹے چھوٹے تالاب ہوا کرتے تھے اور جب زمین سے کھود کر نکالی گئی مٹی سے گھر کھڑے کیے جاتے تھے تو ان تالابوں کا پانی خشکی کے دنوں میں لوگوں کے کام آتا تھا۔
بنگلہ دیش میں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں میں یہ سوچ راسخ ہے کہ قدرت ہم سب سے زیادہ بڑی حقیقت ہے اور ہمیں اس کے ساتھ رہتے ہوئے کام کرنا ہے، نہ کہ اس کے خلاف۔
ایک غیر سرکاری تنظیم واٹر ایڈ کی سربراہ حسین جہاں بتاتی ہیں کہ یہاں مقامی آبادیاں کس طرح کسی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو ڈھال لیتی ہیں۔ ’جب آپ جانتے ہیں کہ قدرتی آفت نے آنا ہی ہے، تو آپ اس کے لیے منصوبہ بندی کر لیتے ہیں۔ کیوں ایسا ہی نہیں ہوتا۔‘
مثلاً لوگ عام طور پر سرخ پکی اینٹیں اپنے گھر کے اندر رکھتے ہیں تاکہ اگر سیلاب آئے تو آپ فوراً اینٹیں چارپائی کے نیچے رکھ کے چارپائی کو اونچا کر لیں۔ حسین جہاں کہتی ہیں کہ بنگلہ دیش کے دیہاتوں میں ایسے چولہے مقبول ہیں جنہیں آپ ایک جگہ سے اٹھا کر کے دوسری جگہ رکھ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہاڑی علاقوں میں لوگوں کو جہاں پناہ ملتی ہے، وہ اس جگہ چولہا رکھ کے کھانا بنا لیتے ہیں۔ جب تازہ چیزیں مسیر نہیں ہوتیں تو مقامی لوگ چاول یا چاول کی روٹی اور شُٹکی (خشک مچھلی) پر گزارہ کرتے ہیں جو کہ توانائی سے بھرپور خواراک ہے۔
سیلاب کے دنوں میں جب لوگ چاروں طرف سے پانی میں گھرے ہوتے ہیں تو کشتیوں پر تیرتے ہوئے سکول بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ان کی دہلیز تک پہنچ جاتے ہیں۔ جو غیر سرکاری تنظیم سیلابی پانی پر تیرتے ہوئے سکول چلا رہی ہے، وہ تیرتی ہوئی لائبریریاں اور کلینک بھی چلا رہی ہے۔ جیسا کہ جرمنی کی ایک تنظیم کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ اس کے باوجود کہ بنگلہ دیش کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں قدرتی آفات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، اس ملک کے پاس وسائل اور آفات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔
لیکن بنگلہ دیش کی مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا مطلب یہ نہیں کہ اسے مسکرا کر مصیبت سہنے کی عادت ہے اور جب بھی مصیبت آتی ہے تو یہ ملک کسی مدد کے بغیر خود ہی اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو جاتا ہے۔
کسی قدرتی آفت کے بعد ایک مرتبہ پھر سے بہتر انداز میں تیار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مقامی آبادی کے تعاون سے قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے بہت اچھے بندوبست پائے جاتے ہیں۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے مسٹر مرشد کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش نے قدرتی آفات سے پیشگی خبردار کرنے والے نظام میں بہت سرمایہ خرچ کیا ہے اور یہ نظام معاشرتی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے، نہ کہ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر۔ ’یہ اصل میں مسجد کے امام، سکول کے ہیڈماسٹر، مقامی حکومت کے اہلکار اور ایسی شخصیات ہیں جن پر لوگ بھروسہ کرتے ہیں، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو بعض اوقات تو بیٹری سے چلنے والے میگافون لیکر سائیکل، رکشتہ پکڑ کر یا پیدل لوگوں کی مدد کے لیے نکل پڑتے ہیں۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مسٹر مرشد کا کہنا تھا کہ ’مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا انحصار وقت پر ہوتا ہے ۔ اس کی بہترین مثال بنگلہ دیش کے سکول ہیں جنہیں اکثر پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونک آفت گزر جانے کے بعد آپ سکولوں کی ان عمارتوں کو فوراً واپس اپنے کام پہ لگا دیتے ہیں اور یوں آپ کو ان سکولوں پر لگائے جانے والے سرمائے کا فوری پھل بھی مل جاتا ہے۔ بعد میں آپ ان ہی سکولوں کو بار بار پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔‘
اور جب سکولوں میں ہی شیلٹر فراہم کیا جاتا ہے تو لوگوں کا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جلد از جلد پہنچنے کا راستہ کیا ہے۔
مرشد نے حال ہی میں بنگلہ دیش میں قدرتی آفات سے بچاؤ کے نظام کا جائزہ لیا ہے اور انہیں معلوم ہوا ہے کہ اب یہاں کے روایتی طریقوں میں جدت لائی جا رہی ہے۔ ’لوگ اب زیادہ مضبوط (آر سی سی) قسم کا سیمنٹ جیسی چیزیں استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے بنائی جانے والی عمارتوں کے اندر کے حصے گر بھی جائیں تو باقی عمارت کو نقصان نہیں پہنچتا۔‘
تاہم اس قسم کے مصنوعی مواد پر مکمل انحصار سے خبردار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بڑھتی ہوئی عالمی حدت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں عمارتوں کے ایسے ڈھانچے بنانے چاہئیں جو صرف آج کام نہ دیں، بلکہ مستقبل میں بھی کام دیتے رہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جدید طریقوں میں ہم مقامی لوگوں کے علم کو بھی شامل رکھیں۔‘
اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ بنگلہ دیشیوں کی یہ روایت کہ وہ اپنی زندگی کو قدرت کے ساتھ ہم آہنگ رکھتے ہیں، یہ وقت سے آگے کی سوچ ہے۔ بنگلہ دیش میں قدرتی آفات کی دخل اندازی یہاں کی زندگی کا معمول رہا ہے اور آج بھی ہے۔ اس کی عکاسی مسٹر مرشد کے سکول کے دنوں کے کیلینڈر سے ہوتی ہے جس میں لکھا ہے کہ ’ہم نے سیلاب کے دنوں میں سکول میں چھٹیاں کر دی تھیں تاکہ بچوں کی تعلیم کا نقصان کم سے کم ہو۔ ہم نے ان چھٹیوں کو پھل چننے اور فصلوں کی کٹائی کے دن قرار دے دیا۔‘ ان کے بقول جب وہ چھوٹے تھے تو ’گرمیوں کی چھٹیاں بھی محض چھٹیاں نہیں تھیں، بلکہ قدرت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے دن بھی وہی ہوا کرتے تھے۔‘
اور بنگلہ دیش سے بہتر کون جانتا ہے کہ قدرت اپنے تحائف مختلف انداز میں نچھاور کرتی رہتی ہے۔