’حُمص میں ہونے والے حملے جنیوا کے لیے پیغام ہیں‘

حُمص میں حملے کے بعد دھواں اٹھ رہا ہے

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

شام میں جاری جنگ میں اب تک تقریباً 5 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں

جنیوا میں شام پر جاری مذاکرات میں شامل شامی نمائندے بشار الجعفری کا کہنا ہے کہ حُمص میں ہونے والے حملے دہشتگردی کی معاونت کرنے والوں کی جانب سے جنیوا کے لیے پیغام ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’پیغام مل گیا ہے، اور لحاظ نہیں کیا جائے گا۔‘

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ستافان دہمِستورا کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ حُمص میں ہونے والے خودکش حملوں سے جینیوا میں جاری امن مذاکرات متاثر نہیں ہوں گے۔

انھوں نے سخت الفاظ میں کہا کہ بعض عناصر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سنیچر کو شام کے مغربی شہر حمص میں سکیورٹی اڈوں پر مسلح حملہ آوروں اور خودکش بمباروں کے حملے میں کم از کم 32 افراد ہلاک ہو گئے۔

ریاستی ٹی وی کا کہنا ہے کہ ملٹری انٹیلیجنس کے مقامی کمانڈر بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔

جہادی تنظیم تحریر الشام نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

باغیوں نے ایک امن معاہدے کے تحت دسمبر 2015 میں حمص کو خالی کر دیا تھا جس کے بعد سے یہ شہر حکومت کے کنٹرول میں ہے۔

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

ریاستی ٹی وی کا کہنا ہے کہ ملٹری انٹیلیجنس کے مقامی کمانڈر بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں

شام میں جاری جنگ کی مانیٹرنگ کرنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے شہر میں ملٹری سکیورٹی کے صدر دفتر اور ریاستی سکیورٹی کے ایک دفتر کو نشانہ بنایا۔

یہ حملے غوثہ اور مہتھا کے علاقوں میں کیے گئے جہاں عموماً سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات ہوتے ہیں۔

ریاستی ٹی وی کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد کے قریبی ساتھی مانے جانے والے آرمی انٹیلیجنس کے صوبائی چیف جنرل حسن دابل بھی ہلاک شدگان میں شامل ہیں۔

تحریر الشام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ان کے پانچ جنگجو شامل تھے۔

تحریر الشام اس وقت وجود میں آئی تھی جب جبتہ الفتح الشام نے (جسے النصرا فرنٹ بھی کہا جاتا ہے) گذشتہ جولائی میں القاعدہ سے باضابطہ تعلقات ختم کر دیے تھے اور شام میں چار دیگر چھوٹی تنظیموں سے اتحاد کر لیا تھا۔

اسی ماہ تنظیم نے اعلان کیا تھا کہ ماضی میں طاقتور اسلام پسند باغی گروہ احرار الشام کے سابق سربراہ ہاشم الشیخ اب ان کی قیادت کریں گے۔