اسرائیلی عملہ اردن چھوڑ کر اپنے ملک واپس پہنچ گیا

اردن

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

اردن کے حکام اس اسرائیلی گارڈ سے پوچھ گچھ کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیلی سفارتخانے کے ارد گرد کا علاقہ سیل کر دیا ہے

اردن میں اسرائیلی سفارتخانے کے اہلکار پر مبینہ طور پر ہونے والے حملے اور دونوں ممالک میں کشیدگی کے نتیجے میں اسرائیل کا سفارتی عملہ اپنے وطن واپس لوٹ گیا ہے۔

اردن میں اسرائیلی سفارتخانے کے قریب اسرائیلی گارڈ نے مبینہ طور پر ایک اردنی حملہ آور کو گولی ماری تھی۔

اپنے بیان میں اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ ملک لوٹنے والے عملے میں وہ سکیورٹی اہلکار بھی ہے جس نے اپنے دفاع میں اردن کے شہری کو گولی ماری تھی۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا سارا سفارتی عملہ محفوظ ہے۔

وزیراعظم نتن یاہو نے سکیورٹی اہلکار اور اپنے سفیر کو معاملے کو سنبھالنے پر مبارکباد دی۔

اسرائیل نے اردن کی جانب سے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تعاون کرنے پر اس کا شکریہ ادا کیا۔

اردن کے حکام اس اسرائیلی گارڈ سے پوچھ گچھ کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے اسرائیلی سفارتخانے کے ارد گرد کا علاقہ سیل کر دیا تھا۔ تاہم اسرائیلی سفارتخانے کا موقف تھا کہ گارڈ کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔

دوسرا اردنی شہری زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں چل بسا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ دوسرے شخص کو غلطی سے گولی لگی تھی۔

دونوں ممالک کے درمیان 1994 میں امن معاہدے کے بعد یہ سب سے سنجیدہ معاملہ ہے۔

اسرائیل کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ایک اردنی شخص نے رہائشی عمارت کے اندر سکیورٹی آفیسر کو پیچھے سے چاقو مارا۔ یہ رہائشی عمارت سفارتخانے کے ساتھ ہی واقع ہے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ سکیورٹی آفسر رہائشی عمارت میں فرنیچر رکھوانے گیا تھا۔

اردن کی مقامی میڈیا کے مطابق حملہ آور 17 سالہ بڑھئی محمد ذکریا تھا۔

ہسپتال میں دم توڑنے والا دوسرا اردنی شخص اس عمارت کا مالک تھا۔

،تصویر کا ذریعہEPA

حملہ آور، مالک مکان اور سکتورٹی آفیسر کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے سکیورٹی آفسر واپس اسرائیلی سفارتخانے آ گیا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ 1961 کے ویانا کنونشن کے مطابق سکیورٹی گارڈ کو تحقیق اور حراست میں لینے سے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔

یروشلم کا غصہ؟

،تصویر کا ذریعہAFP

خیال کیا جا رہا ہے کہ اس حملے کا تعلق اسرائیل کی جانب سے قدیم یروشلم شہر میں اسرائیلی سکیورٹی اقدامات سے ہے۔

خیال رہے کہ یروشلم کے مقدس مقام پر نئے سکیورٹی انتظامات کیے جانے پر یروشلم میں بھی اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں میں جھڑپیں ہوئیں جبکہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے حرم الشریف میں میٹل ڈیٹکٹر لگائے جانے کے بعد اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام رابطے ختم کر دیے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایک ہفتہ قبل دو اسرائیلی پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد مزید سکیورٹی کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔