ابتدئی ہزار دنوں میں غذائیت کی قلت کے اثرات، تصاویر میں
افریقی ملک گھانا میں بچوں کے زندگی کے ابتدائی 1,000 دنوں میں خوراک کی کمی سے ان پر پڑنے والے اثرات ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جو بچے کی مستقبل کی صحت، سکول میں تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت اور کے مستقبل کے روزگار کے بارے میں راہ متعین کرتا ہے۔
فوٹو گرافروں اور تحقیق کاروں کے ایک گروپ نے یو بیلانگ نامی ادارے کے زیر اہتمام گھانا میں بچوں میں خوراک کی کمی سے حوالے سے پڑنے والے اثرات پر کو اجگار کرنے کی کوشش کی ہے۔
نانا آگایا کاوؤ
پچھترسالہ نانا پچھلے 35 برسوں سے بینٹم گاؤں کے کاشتکاروں کے رہنما ہیں۔ نانا نے دو سال قبل اپنی تمام زرعی زمین ایک ہاؤسنگ سوسائٹی ڈویلپر کو بیچ دی ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی اکثریت اپنے ذریعہ آمدن سے محروم ہو چکی ہے اور انھیں اپنے خاندانوں کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
نانا کہتے ہیں 'مجھے بینٹم کا چیف ہونے پرفخر ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ کوئی آپ کی زمین نہیں لے گا۔ مجھے معلوم ہے کہ بینٹم کے لوگ اب کاشتکاری نہیں کر سکتے لیکن آپ زندہ رہنے کے لیے کیا کرتے ہیں یہ آپ پر منحصر ہے۔
کیٹ افول
کیٹ افولو اپنی بوڑھی ماں کی موجودگی میں بتاتی ہیں کہ کس طرح اس کی دو سالہ بچی زندگی کی جنگ ہار گئی تھی۔ جب سے کیٹ افولو کے شوہر کا قریباً ایک عشرہ پہلے انتقال ہوگیا اسے اپنے چار بچوں کو پالنے کے لیے کام ڈھونڈنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ کیٹ کے بچے غدائیت کی کمی کا شکار ہیں اور ان کے پاس کھانے کے لیے مکئی اور کساوا سے بنی ہوئی ڈش بانکو کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
’خدا نے میری دو سالہ بیٹی کو مجھ سے چھین لیا۔ اس کی صحت خراب تھی، میں نے اسے بستر میں ڈال دیا، اسی شام کو ایک سخت طوفان آیا۔ آسمان غصے سے گرج رہا تھا۔ میں نے بادلوں میں ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی، جب میں بستر میں پڑی اپنی بچی کو دیکھنےکے لیے گئی تو وہ مر چکی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ اس گرج نے میری بچی کو مار دیا۔‘
حنا ابیخا
30 سالہ حنا ابیخا کے ہرطرف رزد رنگ کی پانی سے بھری بالٹیاں ہیں جو انھوں نے ایک رات پہلے بارش کے پانی سےبھری تھیں۔ حنا ابیخا کبھی سکول نہیں گئیں اور کم عمری میں کام شروع کر دیا۔ وہ اب ایک مچھیرے کی بیوی ہیں جسے کئی ہفتوں تک اپنے گھر دور رہنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں:’میرا کچن خالی ہے، میرے پاس کھانےکو کچھ نہیں۔ میرے بچے وہ کھانا بھی نہیں کھاتے جو تھوڑا بہت میں انھیں دیتی ہوں۔ مجھے غذائیت کی کمی کے بارے کچھ معلوم نہیں، بس میری دعا ہے کہ میرے بچے بڑے آدمی بنیں۔‘
ربیکا
17 سالہ ربیکا کے بچوں کو ڈاکٹروں یا تربیت یافتہ ہیلتھ کیئر کے ماہرین تک رسائی حاصل نہیں ہے اور بیماری کی صورت میں مقامی دوکانوں سے دوائیاں حاصل کرتے ہیں۔ گاؤں میں اور کئی عورتوں کی طرح ربیکا کو اپنے بچوں کے باپ سے کوئی مدد نہیں ملتی ۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ کسی سے مدد حاصل نہیں کر سکتیں۔ وہ کہتی ہیں 'یہاں عورتیں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتیں'
بیٹرس ایمپونفی (دائیں) جوئے گلی (بائیں)
بیٹرس اور جوئے
بیٹرس اور جوئے غذائیت کی کمی کے یونٹ کی انچارج ہیں۔ چند نرسیں 30 ہزار نفوس پر مشتمل آبادی کی صحت کی محاظ ہیں۔ غذائی قلت کا سامنا کرنے والے بچوں میں سے صرف 20 فیصد بچوں کو ہی اس کلنک میں لایا جاتا ہے۔
’غذائی قلت کا شکار بچوں کی مائیں اپنے بچوں کے مسائل کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتیں کیونکہ غذائی قلت بدنامی کا باعث ہے۔ ہم پڑوسیوں سے بات چیت کر کے غذائی قلت کا شکار بچوں کا پتا چلاتے ہیں تاکہ انھیں یہاں کلنک میں آنے میں شرمندگی کا نہ سامنا کرنا پڑے۔ لیکن ہماری یہ کوشش سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔‘
کرسٹی اناش
32 سالہ کرسٹی اناش اپنی بیٹی کے ساتھ اس کھیت کے پاس کھڑی ہیں جہاں وہ کبھی کام کرتی تھیں۔ اب اس زمین کو گاؤں کے سربراہ نانا آگایا کووؤ نے بیچ ڈالا ہے جس کے مطلب ہے کہ اب انھیں کام نہیں ملے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں اسی کھیت میں کام کر کے اپنے چار بچوں کو پال رہی تھی لیکن اب اس گاؤں میں نہ تو کوئی روزگار ہے اور نہ ہی خوراک۔ میں اس کا چوتھائی بھی نہیں کما پاتی جو میں پہلے کماتی تھی۔‘
میری ایسل
27 سالہ میری ایسل کلوکوز کی وہ بوتل اٹھائے بیٹھی ہیں جو ایک نرس نے اسے دی تھی۔ ایسل اپنے بچے کو اپنا دودھ نہیں پلا سکی کیونکہ وہ پیدائش کے وقت بہت کم وزن تھا۔ کلوکوز دیئے جانے کے باوجود ایسل کا بیٹا پیدائش کے چھ ہفتے کے اندر ہی فوت ہو گیا۔ مقامی روایت ہے کہ اگر کوئی بچہ غذائیت کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہوا ہو تو اسے ماں باپ سے لے لیا جاتا ہے اور اس کے ماں باپ کو بچے کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہوتی۔
اس پراجیکٹ کا اہتمام واشنگٹن میں قائم یوبولانک نامی اداروں کے تعاون سے کیا گیا۔