حکومتوں کا تختہ الٹنے والا صحافی اب ٹرمپ کے مدمقابل
'فیئر: ٹرمپ ان دا وائٹ ہاؤس' نامی کتاب کی اشاعت کے بعد امریکی صدر اور سرکردہ امریکی صحافی ایک دوسرے کے مدِ مقابل آ گئے ہیں۔ اس جنگ میں اصل ہتھیار دونوں اطراف کی ساکھ ہے۔
واشنگٹن پہنچنے والے اکثر صحافیوں کا ارمان ہوتا ہے کہ واٹر گیٹ سکینڈل فاش کرنے والے اور سابق امریکی صدرنکسن کا تختہ الٹنے والے باب وڈورڈ یا کارل برنسٹین بن جائیں۔ وہ خواب دیکھتے ہیں کہ انھیں 'ڈیپ تھروٹ' جیسے کوئی خفیہ ذرائع مل جائیں جو انھیں اندر کی بات بتا دیں، اور بعد میں ان کے کارناموں پر فلمیں بنیں۔
واٹر گیٹ کے بعد سے وڈورڈ سپر سٹار بن گئے لیکن اس تمام عرصے میں وہ بنیادی صحافت سے جڑے رہے اور انھوں نے ایک کے بعد ایک کتاب لکھی۔ وہ محنتی، ان تھک، جزئیات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی ہیں۔
اسی بارے میں
وہ جان بوجھ کر سننسی نہیں پھیلاتے۔ الٹا ان کی کتابوں پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی زبان اور انداز خشک اور بےجان ہوتے ہیں۔
ان کے موضوعات بھی کچھ زیادہ سنسنی خیز نہیں ہوتے۔ انھوں نے بل کلنٹن پر جو کتاب لکھی، اس کا موضوع مونیکا لونسکی سکینڈل نہیں، بلکہ بجٹ کا خسارہ، عوام کی بہبود کے منصوبے اور نظامِ صحت تھا۔ اوباما پر کتاب میں افغانستان اور عراق کی جنگوں پر بحث کی گئی۔
ایسا بھی نہیں کہ وہ صرف صدور پر قلم اٹھاتے ہوں۔ وہ سپریم کورٹ، سی آئی اے، پینٹاگون اور ایلن گرین سپین کے بارے میں بھی کتابیں لکھ چکے ہیں۔
ان کی تحریروں کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ روزمرہ کی خبریں پر نہیں، بلکہ طویل مدت رجحات کی نبض پر انگلی رکھتے ہیں۔ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2013 میں اپنا اکاؤنٹ کھولنے کے بعد سے انھوں نے اب تک صرف 93 ٹویٹس کی ہیں۔
ان کی کتابوں کے سب سے جاندار حصے وہ ہیں جو ان کے ذرائع کے بیانات پر مبنی ہوتے ہیں۔ حالیہ کتاب 'فیئر' (جو 11 ستمبر کو شائع ہو گی) میں ٹرمپ کے چیف آف سٹاف جان کیلی وائٹ ہاؤس کو 'پاگل خانہ' اور خود ٹرمپ کو 'احمق' کہتے ہیں، جب کہ جیمز میٹس صدر کو پانچویں چھٹی جماعت کا طالب علم قرار دیتے ہیں۔
وزیرِ دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے وڈورڈ کی کتاب حقائق کے منافی ہے
لیکن مسئلہ وہی ساکھ کا ہے اور اس میدان میں وڈورڈ کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ امریکہ کے سب سے معتبر صحافیوں میں سے ایک ہیں۔
ان کی کتابیں تفصیلات سے اس قدر مالامال ہوتی ہیں کہ وہ تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں۔ خاص طور صدر بش پر لکھی گئی ان کی تین کتابوں کا جواب ابھی تک نہیں آ سکا۔
وڈورڈ کی سب سے بڑی خوبی ان کی رسائی ہے اور اہم جگہوں پر بیٹھے لوگ ان کے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابوں کی اشاعت بذاتِ خود ایک اہم خبر بن جاتی ہے۔
واشنگٹن کے اخباری ادارے ایک اور باب وڈورڈ بننے کے متمنی صحافیوں سے اٹے پڑے ہیں۔ لیکن یہی چیز بعض اوقات منفی رخ اختیار کر جاتی ہے۔ حکومتوں کا بوریا بستر گول کرنے کے خواہش مند صحافی بعض اوقات حد سے باہر نکل جاتے ہیں اور ہر طرح کے سکینڈل اچھال کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بڑا تیر مار لیا۔
واٹر گیٹ کے طرز پر اب اتنے گیٹ سامنے آ گئے ہیں کہ لفظ 'گیٹ' ہی گھس پٹ بن گیا ہے۔
لیکن خود وڈورڈ اس راہ پر نہیں چلے۔ وہ پہلے ہی ایک صدر کو گرا چکے ہیں اور ان کا کردار فلمایا جا چکا ہے۔ یہ تاریخ ساز صحافی اب امریکہ کا سرکاری تاریخ دان بن چکا ہے۔
باب وڈورڈ اب ایک شخص نہیں، ایک ادارے کا نام ہے۔