اسرائیل اور یو اے ای معاہدہ، اسرائیل کی نظر اب سعودی فضائی حدود پر
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ فلسطینی علاقے سے متعلق معاہدے کے بعد یو اے ای کے نیوز چینل سکائی نیوز عربیہ کو خصوصی انٹرویو دیا ہے۔
اس انٹرویو میں نتن یاہو نے ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے یہ معاہدہ ممکن ہو سکا۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدے سے اسرائیلی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔
دبئی اور تل ابیب کے درمیان براہ راست پرواز
اس سے قبل پیر کو وزیراعظم نتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل متحدہ عرب امارات اور تل ابیب کے درمیان براہ راست ہوائی پرواز شروع کرنے کے لیے بھی کام کر رہا ہے جو سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزرے گی۔
نتن یاہو بین گوران ہوائی اڈے پر وزیر ٹرانسپورٹ میری ریگوے کے ساتھ پہنچے اور انھوں نے اس معاہدے کے ممکنہ فوائد پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا 'ہم سعودی عرب کی فضائی حدود سے تل ابیب اور دبئی کے درمیان پروازیں شروع کرنے پر کام کر رہے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ یہ معاہدہ طے پا جائے گا۔
انھوں نے کہا 'یہ اسرائیلی ہوا بازی کی صنعت اور اسرائیلی معیشت کو بدل کر رکھ دے گا کیونکہ دونوں فریقوں کو سیاحت اور زبردست سرمایہ کاری کا موقع ملے گا۔'
امریکی مطالبے پر معاہدہ
گذشتہ دنوں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین ایک خصوصی معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت اسرائیل نے مقبوضہ غرب اردن کے کچھ حصے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے عمل کو فوری طور پر روک دیا ہے۔
سکائی نیوز عربیہ کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دوسرے عرب ممالک بھی اس معاہدے کی طرف بڑھیں گے۔
نتن یاہو نے کہا کہ ٹرمپ حکومت نے ان سے کہا ہے کہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت امن کا فروغ ہے اور کہا ہے کہ غرب اردن میں جاری کام کو روکا جائے۔
انھوں نے کہا ’یہ امریکی درخواست تھی کہ اسرائیلی قانون کو کچھ عرصے کے لیے نافذ کرنا روک دیا جائے اور ہم اس پر راضی ہوگئے۔ امریکیوں نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ امن کے ماحول کو پھیلانا چاہتے ہیں اور اس وقت ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے کہ امن کو آگے بڑھایا جائے۔'
نتن یاہو نے اس پورے انٹرویو کے دوران انگریزی میں بات کی لیکن ان کی گفتگو کو عربی میں ڈب کر کے دکھایا گیا ہے۔
امریکہ سے بھی تبصرہ آیا
امریکی صدر کے مشیر اور داماد جیریڈ کشنر نے پیر کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کچھ وقت کے لیے مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے کی پالیسی پر اسرائیل کی حمایت نہیں کرے گا۔
انھوں نے کہا: 'اسرائیل ہمارے ساتھ اس بات پر راضی ہوا ہے کہ وہ ہماری رضامندی کے بغیر آگے نہیں بڑھے گا۔ کچھ مدت کے لیے ہم اس بارے میں اسرائیل کی حمایت نہیں کریں گے کیونکہ اس وقت ہماری توجہ نئے امن معاہدے پر عمل درآمد کروانے پر ہے۔
جبکہ نتن یاہو نے متحدہ عرب امارات کی تعریف کی اور اس اعتماد کا اظہار کیا کہ دوسرے عرب ممالک بھی اس سمت میں اقدامات کریں گے اور اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کریں گے۔
معیشتوں کو بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے
نتن یاہو کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے دونوں ممالک کو بہت فائدہ ہوگا اور اسرائیل متحدہ عرب امارات کے فری زون علاقوں سے درآمد کرنے کا بھی منصوبہ بنا رہا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں فری زون وہ علاقے ہیں جہاں غیر ملکی کمپنیاں آسان قواعد کے ساتھ کام کر سکتی ہیں اور جہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کمپنیوں کے مکمل مالکانہ حق لینے کی اجازت ہے۔
اس معاہدے کو مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے نتن یاہو نے اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ یہ معاہدہ بالآخر فلسطین کے عوام کے ساتھ امن کی سرزمین ہموار کرے گا۔
یو اے ای کو جمہوری ملک کہا
نتن یاہو نے متحدہ عرب امارات کو جمہوریت قرار دیا۔ جبکہ فریڈم ہاؤس کے مطابق متحدہ عرب امارات جمہوریت کے لحاظ سے دنیا کے سب سے کم آزاد ممالک میں سے ایک ہے۔
نتن یاہو نے کہا: 'یہ معاہدہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کو ساتھ لے کر آئے گا۔ دونوں ممالک جمہوریت پسند ہیں اور بہت ترقی یافتہ ہیں۔'
اسرائیل کے سعودی عرب کے ساتھ باضابطہ تعلق نہیں ہے اور اسرائیلی طیاروں کو سعودی عرب کی فضائی حدود میں اڑنے کی اجازت نہیں ہے۔
تاہم کچھ معاملات خصوصاً سلامتی کے حوالے سے دونوں ممالک کے مابین تعاون کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔
نتن یاہو نے کہا: 'متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ٹیکنالوجی سیکٹر میں زبردست سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔'
اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے فری زون میں تیار کردہ سستا سامان بھی اسرائیلی صارفین کو دستیاب ہوگا۔
انھوں نے کہا: 'اسرائیلی معیشت اس سے جو فائدہ حاصل کرے گی اس کا فائدہ ہر شہری کو ہوگا۔'
عمان نے اشارے دیے
اس کے ساتھ ہی پیر کو عمانی وزیر خارجہ یوسف بن علوی نے اپنے اسرائیلی ہم منصب گبی اشکینازی سے فون پر گفتگو کی۔
یہ پہلا موقع ہے جب دونوں سفارتکاروں کے مابین اس طرح کی گفتگو ہوئی ہے۔
ماہرین کے مطابق متحدہ عرب امارات کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق کرنے والے پہلے چند ممالک میں عمان شامل ہوسکتا ہے۔
عمان نے جمعہ کے روز کہا کہ اس نے اسرائیل اور ہمسایہ ملک متحدہ عرب امارات کے مابین تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کی حمایت کی ہے اور امید کرتا ہے کہ اس اقدام سے اسرائیل اور فلسطین کے علاقے میں طویل مدتی امن کے قیام میں مدد ملے گی۔
اسرائیلی صدر ریولن نے اس معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات کے رہنما کو اسرائیل کے دورے کی دعوت دی ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید النہیان کو دعوت نامہ عربی میں لکھا گیا ہے۔
اس دعوت نامے میں لکھا گیا ہے کہ 'اسرائیل اور یروشلم تشریف لائیں' اور ہمارے معزز مہمان بنیں۔
اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہتا ہے لیکن عرب ممالک مشرقی یروشلم کو فلسطین کے مستقبل کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں۔