امریکہ کا ستمبر کے اختتام تک عراق سے 2200 فوجی نکالنے کا اعلان

،تصویر کا ذریعہReuters
امریکی فوجی عراق پر 2003 میں حملے سے لے کر اب تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں
مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ امریکہ کچھ ہی ہفتوں میں عراق سے اپنے ایک تہائی سے زیادہ فوجی نکال لے گا۔
جنرل کینیتھ میکینزی نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عراق میں فوجیوں کی تعداد ستمبر کے دوران پانچ ہزار سے کم کر کے تین ہزار کی جا سکتی ہے۔
ان کے مطابق باقی فوجی شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی 'باقیات کو ختم کرنے کے لیے' عراقی سیکورٹی فورسز کی مشاورت اور ان سے تعاون کرتے رہیں گے۔
گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعادہ کیا تھا کہ وہ جلد از جلد عراق سے تمام فوجی واپس نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
توقع ہے کہ وہ اس اقدام کو سنہ 2016 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکہ کو 'لامتناہی جنگوں' سے علیحدہ کرنے کے وعدے کی تکمیل کے طور پر پیش کریں گے۔
عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی امریکہ کی جانب سے جنوری میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کے باعث بھی تنازع بنی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اس اقدام کی وجہ کیا ہے؟
بغداد کے دورے کے دوران جنرل میکینزی نے کہا کہ امریکی فوج کو عراقی سیکیورٹی فورسز کے آزادانہ طور پر کام کرنے اور نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے خطرے سے نمٹنے کی قابلیت پر اعتماد ہے۔
ایک وقت میں عراق کا بڑا حصہ اس تنظیم کے زیرِ اثر تھا۔
انھوں نے رپورٹرز سے کہا: 'عراقی فورسز کی ترقی کے اعتراف میں، اور عراقی حکومت اور اپنے اتحادیوں سے مشاورت اور رابطہ کاری کے بعد امریکہ نے عراق میں اپنے فوجیوں کی تعداد ستمبر کے مہینے میں تقریباً 5200 سے گھٹا کر 3000 کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔'
انھوں نے مزید کہا کہ 'افواج کی تعداد میں اس کمی سے ہم اپنے عراقی شراکت داروں کو [نام نہاد دولتِ اسلامیہ] کی باقیات ختم کرنے اور اس کی مستقل شکست کو یقینی بنانے کے لیے مشاورت اور تعاون فراہم کر سکیں گے۔'

،تصویر کا ذریعہEPA
عراقی وزیرِ اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فوجیوں کی موجودگی پر بات کی تھی
عراق کے ساتھ ساتھ امریکہ افغانستان اور جرمنی سے بھی اپنی افواج نکالنے کے مرحلے میں ہے۔
افغان طالبان کے ساتھ رواں سال کے اوائل میں معاہدے کے تحت آئندہ سال اپریل تک افغانستان سے تمام امریکی فوجی نکالے جا سکتے ہیں۔
جرمنی میں موجود تقریباً 12 ہزار فوجیوں کو پولینڈ بھیجا جائے گا تاہم امریکی قانون سازوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے جن کا خیال ہے کہ اس سے روس مضبوط ہوجائے گا۔
امریکی فوجی عراق میں کیوں ہیں؟
سنہ 2003 میں امریکی قیادت میں عراق پر صدر صدام حسین کا تختہ الٹنے اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے حملہ کیا گیا۔
صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ ہوا تاہم پایا گیا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں تھے۔
امریکی صدر جارج بش نے 'آزاد اور پرامن عراق' کا وعدہ کیا مگر ملک ایک فرقہ وارانہ جنگ میں الجھ گیا جس میں کئی ہزار افراد کی جانیں گئیں۔
سنہ 2011 میں امریکہ کے برسرِپیکار فوجی عراق سے نکال لیے گئے۔
سنہ 2014 میں جب نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے عراق کے وسیع حصوں پر قبضہ کر لیا تو امریکی فوج عراقی حکومت کے بلانے پر لوٹی۔
ان کا عراق میں لوٹنا ایک بین الاقوامی اتحاد کے تحت تھا جس کا کام عراقی سیکیورٹی فورسز کو تربیت اور مشاورت فراہم کرنا تھا۔

،تصویر کا ذریعہEPA
امریکہ نے گذشتہ ماہ عراق کا کیمپ تاجی فوجی اڈہ عراقی فورسز کے حوالے کر دیا تھا
بغداد نے سنہ 2017 کے اختتام پر نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی عسکری شکست کا اعلان کر دیا تاہم پانچ ہزار کے قریب امریکی فوجی عراق میں رہے تاکہ جنگجو عناصر کو واپس ابھرنے سے روکا جا سکے۔
نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے سلیپر سیلز کی جانب سے مسلسل حملوں کے باوجود کچھ عراقی سیاسی گروہ بشمول ان کے جو ایران سے منسلک تھے، امریکہ اور دیگر ممالک کے فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کرتے رہے۔
ان مطالبوں میں شدت اس وقت آئی جب امریکہ نے ایک ڈرون حملے میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا، جن کے بارے میں صدر ٹرمپ نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ 'دنیا کے سب سے بڑے دہشتگرد' ہیں۔
اس وقت کے نگراں عراقی وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'امریکی افواج کی موجودگی کی شرائط کی کھلی خلاف ورزی' قرار دیا تھا۔
اس کے بعد عراقی پارلیمان نے ایک غیر لازمی بل منظور کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ 'بین الاقوامی اتحاد کو مدد کے لیے کی گئی درخواست منسوخ کرے۔'
اس بل پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔

،تصویر کا ذریعہEPA
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد عراق سے امریکی فوج کے انخلا کے مطالبوں میں شدت آئی
اس دوران ایران نے اپنے جنرل کی ہلاکت کے بدلے میں دو عراقی فوجی اڈوں پر بیلسٹک میزائل داغے جہاں امریکی فوجی موجود تھے۔
ان حملوں کے نتیجے میں 100 سے زائد امریکی فوجیوں کو دماغی چوٹیں پہنچیں۔
امریکی حکام نے ایران سے منسلک عراقی ملیشیاؤں پر غیر ملکی فوجیوں اور شہریوں پر راکٹ حملوں کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
مارچ میں ایسے ہی ایک راکٹ حملے میں دو امریکی اور ایک برطانوی فوجی کی ہلاکت ہوئی تھی۔