میانمار: فوج کی طرف سے 'جانی نقصان‘ کی وارننگ کے باجود لاکھوں سڑکوں پر

میانمار احتجاج

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

فروری کے اوئل میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد پیر کے روز ملک میں ایک بڑا احتجاج دیکھنے میں آیا جس میں ہزاروں افراد شریک ہیں

میانمار میں فوج کی جانب سے مظاہرین کو جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی تنبیہ کے باوجود ہزاروں افراد فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔

پیر کے روز لاکھوں افراد نے دارالحکومت نیپیدو کی سڑکوں پر احتجاج کیا۔ دارالحکومت نیپیدو میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آبی توپوں کا استعمال کیا۔

ملک میں تمام کاروبار بند ہیں اور سرکاری ملازمین بھی فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف احتجاج میں شامل ہو چکے ہیں۔

مظاہرین نے جلد انتخابات کے وعدے کو مسترد کر دیا ہے اور وہ جمہوری طور پر منتخب رہنما آنگ سان سو چی اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر راہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

فوج کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس کے انتخابات میں این ایل ڈی کی زبردست کامیابی دھاندلی کا نتیجہ تھی۔

پہلی فروری کو میانمار کی فوج نے آنگ سان سو چی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوج کا الزام ہے کہ آنگ سان سو چی کی جماعت نے حالیہ انتخابات میں انتخابی قوانین کی خلاف ورزیاں کی تھیں۔

فوج نے آنگ سان سوچی کو گھر میں نظر بند کر رکھا ہے اور ان پر وائرلیس پر گفتگو کرنے والے آلے، واکی ٹاکی کے 'غیر قانونی' استعمال اور قدرتی آفات سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

خبررساں ادارے روئٹر کے مطابق مظاہرین نعرے بلند کر رہے تھے: ’ہم جمہوریت چاہتے ہیں، فوجی جنتا نہیں، ہم اپنا مستقبل خود بنانا چاہتے ہیں۔‘

فوج کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں جسے سرکاری نشریاتی ادارے ایم آر ٹی وی پر نشر کیا گیا، کہا گیا کہ نوجوان لوگوں کو محاذ آرائی پر اکسایا جا رہا ہے جس میں ان کی زندگیاں بھی جا سکتی ہیں۔

فوجی بیان میں شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک میں افراتفری پھیلانے اور مظاہروں کا انعقاد کرنے سے باز رہیں۔

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہReuters

فوج کی جانب سے مظاہرین کو جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی وارننگ کے بعد فیس بک نے ایم آر ٹی وی کے فیس بک پیچ کو ہٹا دیا ہے۔

فیس بک کی طرف سے یہ اقدم اتوار کے روز دو مظاہرین کی فائرنگ سے ہلاکت کے بعد اٹھایا گیا تھا۔

فیس بک نے فوجی نیوز سائٹ کا پیج ڈیلیٹ کر دیا

اس سے پہلے فیس بک نے فوج کے زیر اہتمام چلنے والی ایک نیوز ویب سائٹ کا فیس بک پیج ڈیلیٹ کر دیا تھا۔

فیس بک کا کہنا ہے کہ ’ٹیٹماڈاو ٹرو نیوز انفارمیشن ٹیم پیج‘ نے تشدد پر اکسانے سے متعلق اس کے ضابطوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایک بیان میں فیس بک کا کہنا ہے: ’ہماری عالمی پالیسیوں کے مطابق ہم نے ٹیٹماڈاو ٹرو نیوز انفارمیشن ٹیم پیج کو تشدد پر اکسانے اور ضرر پہنچانے کا سدِ باب کرنے والے ہمارے کمیونیٹی سٹینڈرڈز کی لگاتار خلاف ورزیوں کی وجہ سے فیس بک پر سے ہٹا دیا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

مظاہرین آنگ سان سو چی کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں

میانمار میں فیس بک خبر رسانی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق میانمار کے پانچ کروڑ چالیس لاکھ شہریوں میں سے دو کروڑ بیس لاکھ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔

اتوار کے روز بھی ہزاروں افراد نے اقتدار پر فوج کے قبضے کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی تھی۔

روہنگیا مسلمانوں کے حقوق انسانی کی پامالی کے الزامات کی وجہ سے فوج کے سربراہ مِن آنگ لینگ اور دوسرے اعلٰی فوجی حکام پر فیس بک نے پہلے ہی پابندی عائد کر رکھی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق میانمار کے پانچ کروڑ چالیس لاکھ شہریوں میں سے دو کروڑ بیس لاکھ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

اتوار کے روز مسیحی راہبائیں بھی احتجاج میں شامل ہوگئیں

بہت سے مظاہرین اس احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والی پہلی نوجوان خاتون کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے جن کی تدفین اتوار کو تھی۔

ملک میں اوائل فروری میں فوجی بغاوت کے خلاف جاری احتجاج کے دوران سنیچر کو ہونے والے تشدد کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔

منڈالے میں اس وقت دو افراد ہلاک ہوگئے جب پولیس نے مظاہرین پر گولی چلائی۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینتونیو گتاریس نے ایک ٹویٹ میں تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’پر امن مظاہروں کے خلاف ہلاکت خیز طاقت، دھمکی اور دھونس کا استعمال ناقابل قبول ہے۔‘