میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں میں کم از کم 90 افراد ہلاک: اقوام متحدہ، امریکہ اور برطانیہ کی سخت الفاظ میں مذمت

میانمار

،تصویر کا ذریعہReuters

امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکہ میانمار میں سنیچر کے روز ہونے والی ہلاکتوں کو شدید غم و غصے کی نظر سے دیکھتا ہے۔

سنیچر کے روز میانمار کی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس میں کم از کم 90 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے اور گذشتہ ماہ فوجی بغاوت کے بعد سے یہ ملک میں مہلک ترین دن تھا۔

اینتھونی بلنکن کا کہنا تھا کہ اس روز کے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ ’برسر اقتدار فوج چند لوگوں کے مفادات کے لیے عام شہریوں کو قربان کر دے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ میانمار کے بہادر لوگ اس دہشت کی حکومت کو مسترد کرتے ہیں۔

اس سے قبل امریکی سفارتخانہ یہ دعویٰ کر چکا ہے کہ میانمار میں سکیورٹی فورسز ’نہتے شہریوں کو قتل کر رہی ہیں‘ جبکہ یورپی یونین نے کہا ہے کہ سنیچر کا دن ’دہشت اور رسوائی کے طور پر یاد کیا جائے گا۔‘

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ وہ ان واقعات کا سن کر انتہائی حیران ہیں اور برطانوی وزیرِ خارجہ اسے پستی کی ایک نئی مثال قرار دے چکے ہیں۔

میانمار میں گذشتہ ماہ فوج نے حکومت کا تحتہ الٹ کر ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا تاہم اس کے بعد سے ملک میں فوجی بغاوت کے خلاف مسلسل مظاہرے کیے جا رہے تھے۔

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

سنیچر کو مسلح افواج کا دن منایا جا رہا تھا اور اس موقعے پر مظاہرین نے ینگون (رنگون) اور دیگر شہروں میں بھی مظاہرے کیے۔

یہ بھی پڑھیے

فوجی بغاوت کے قائد مِن آنگ ہلینگ نے سنیچر کو قومی ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ وہ ’جمہوریت کا تحفظ‘ کریں گے۔ اُنھوں نے انتخابات کا وعدہ تو کیا تاہم کوئی تاریخ نہیں دی۔

یکم فروری کو فوجی بغاوت کے بعد سے مظاہروں کو دبانے کی سکیورٹی فورسز کی کوششوں میں اب تک 320 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

سرکاری ٹی وی نے جمعے کو اپنی نشریات میں خبردار کیا تھا کہ لوگوں کو ’پہلے ہونے والی بری اموات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ آپ بھی سر اور پشت پر گولی لگنے کے خطرے کی زد میں ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہReuters

میانمار کی سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے؟

فوج کی جانب سے طاقت کے مہلک استعمال کی دھمکی کے باوجود فوجی بغاوت کے خلاف متحرک کارکنوں نے سنیچر کو بڑے مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔

سکیورٹی فورسز بڑی تعداد میں مظاہروں کو روکنے کے لیے موجود تھیں۔ خاص طور پر ینگون میں سکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد نظر آئی۔

اموات کی تعداد کی تصدیق کرنا مشکل ہے تاہم نیوز ویب سائٹ دی ایراوادی نے پہلے 28 مقامات پر تین بچوں سمیت 59 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی۔

میانمار ناؤ کا کہنا تھا کہ ینگون کے مضافاتی علاقے میں پولیس سٹیشن کے باہر چار ہلاکتوں سمیت 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ایک صحافی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پولیس نے شمال مشرقی شہر لاشیو میں مظاہرین کے خلاف اصلی گولیوں کا استعمال کیا تھا۔

فوجی بغاوت کے مخالف ایک گروہ سی آر پی ایچ کے ترجمان ڈاکٹر ساسا نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے کہا: 'آج مسلح افواج کے لیے شرم کا دن ہے۔ فوجی جنرل 300 سے زیادہ معصوم شہریوں کو قتل کرنے کے بعد مسلح افواج کا دن منا رہے ہیں۔'

،تصویر کا ذریعہGetty Images

فوج کا کیا کہنا ہے؟

سنیچر کو اپنی براہِ راست نشر ہونے والی تقریر میں مِن آنگ ہلینگ نے کہا: 'فوج جمہوریت کے تحفظ کے لیے قوم کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔'

'مطالبات کی خاطر استحکام اور تحفظ کو متاثر کرنے والے پرتشدد اقدامات غیر مناسب ہیں۔'

اُنھوں نے مزید کہا کہ فوج کو اقتدار پر قبضہ جمہوری طور پر منتخب آنگ سان سوچی اور اُن کی جماعت کے 'غیر قانونی اقدامات' کی وجہ سے کرنا پڑا۔

لیکن اُنھوں نے واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ فوج کو قتل کے ارادے سے گولی مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ اس سے قبل فوجی رہنماؤں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ گولیاں مظاہرین کی جانب سے ہی چلائی گئیں۔

میانمار میں مسلح افواج کا دن سنہ 1945 میں جاپانی قبضے کے خلاف میانمار کی فوجی مزاحمت کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

اس دن ہونے والی پریڈ میں مختلف ممالک کے حکام شریک ہوتے ہیں۔ مگر بظاہر روسی نائب وزیرِ دفاع الیگزینڈ فورمن ہی وہاں موجود واحد غیر ملکی اہلکار تھے۔

من آنگ ہلینگ نے کہا کہ 'روس سچا دوست ہے۔'

امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے فوجی بغاوت کے جواب میں پابندیاں عائد کی ہیں۔ میانمار اور روس کے دفاعی تعلقات حالیہ سالوں میں مضبوط ہوئے ہیں۔ اس دوران ماسکو نے ہزاروں سپاہیوں کو فوجی تربیت فراہم کی ہے جبکہ فوج کو اسلحہ بھی فروخت کیا ہے۔