میانمار میں فوج کا زیر حراست عورتوں پر تشدد: ‘ہم یہاں پہنچنے والی خواتین کا ریپ اور قتل کر دیتے ہیں‘

  • لارا اون اینڈ کو کو آنگ
  • بی بی سی ورلڈ سروس
میانمار، خاتون، خاکہ

بی بی سی کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق میانمار میں زیرِ حراست خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور ریپ کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

اس سال کے آغاز میں پانچ ایسی خواتین، جنھیں ملک میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرے کرنے کی وجہ سے حراست میں رکھا گیا، کا دعویٰ ہے کہ انھیں گرفتاریوں کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ہراساں کیا گیا۔

اس تحریر میں ان کے نام سکیورٹی وجوہات کی بنا پر تبدیل کیے گئے ہیں۔

انتباہ: اس مضمون میں تشدد اور جنسی ہراسانی کی پریشان کن تفصیلات شامل ہیں۔

فروری میں میانمار میں فوج کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ملک بھر میں احتجاج جاری ہے اور اس مزاحمتی تحریک میں خواتین کا اہم کردار ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگرچہ میانمار میں فوج نے ماضی میں بھی اغوا اور تشدد کا استعمال کیا ہے لیکن فوجی بغاوت کے بعد یہ بڑھ گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز کے مطابق دسمبر 8 تک ملک میں 1318 عام شہری جمہوریت حامی تحریک کے خلاف فوجی آپریشنز میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 93 خواتین شامل ہیں۔

ان میں سے کم از کم آٹھ خواتین کی زیرِ حراست ہلاکت ہوئی اور ان میں سے چار کو ایک تفتیشی مرکز میں تشدد کر کے مارا گیا۔

کل 10200 افراد کو حراست میں رکھا گیا، جن میں دو ہزار خواتین ہیں۔

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

جمہوریت کے حوالے سے کام کرنے والی کارکن این سو مئی کو تقریباً 6 ماہ کے لیے زیرِ حراست رکھا گیا جن میں پہلے دس دن انھوں نے میانمار کے بدنام تفتیشی مرکز میں گزارے، جہاں ان کا دعویٰ ہے کہ انھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک دن وہ احتجاج کے لیے پلے کارڈ بنا رہی تھیں جب انھیں گرفتار کیا گیا اور زبردستی ایک وین میں دھکیل دیا گیا۔

‘جب میں ایک نامعلوم مقام پر پہنچی تو رات کا وقت تھا اور میری آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی۔ وہ مجھے خیالی رکاوٹوں سے بچاتے ہوئے چلا رہے تھے جیسے میرا مذاق بنا رہے ہوں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انھیں حراست میں رکھنے والوں نے ان سے سوالات کیے اور ہر وہ جواب جو انھیں پسند نہیں آتا تھا، اس پر انھیں ڈنڈے مارے جاتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان سے بار بار ان کی جنسی زندگی کے بارے میں سوالات پوچھے جا رہے تھے اور ایک تفتیش کار نے دھمکی دی کہ ‘کیا آپ کو پتا ہے کہ یہاں پہنچنے والی خواتین کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ ہم انھیں ریپ کرتے ہیں اور قتل کر دیتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جب ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی تو انھیں جنسی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ‘انھوں نے میری قمیض اتارتے ہوئے مجھے چھوا اور میرے جسم کی نمائش کی۔‘

اس کے بعد ان کی آنکھوں کی پٹی اتاری گئی تو انھوں نے دیکھا کہ ایک محافظ نے اپنی پستول میں سے سوائے ایک گولی کے تمام گولیاں نکال دیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جب انھوں نے اپنی ساتھیوں کی معلومات تفتیش کاروں کو نہیں دیں تو انھوں نے وہ پستول ان کے منھ میں ڈال دیا۔

عبوری حراستی مراکز

ہیومن رائٹس واچ میں میانمار پر کام کرنے والی مینی مانگ کے مطابق یہ تفتیشی مراکز کوئی عبوری حراستی مرکز ہو سکتے ہیں، کسی فوجی بیرک کا کمرہ ہو سکتا ہے اور یہاں تک کہ کسی خالی سرکاری عمارت کا حصہ بھی ہو سکتے ہیں۔

اس بات کی تصدیق میانمار میں کام کرنے والی ایک وکیل نے بھی کی۔ انھوں نے بی بی سی سے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

اس وکیل کا کہنا ہے کہ انھوں نے متعدد ایسے لوگوں کی نمائندگی کی ہے جو کہتے ہیں کہ انھیں تفتیش کے دوران تشدد اور جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘میری ایک کلائنٹ کو غلط طور پر شناخت کیا گیا مگر انھیں پھر بھی گرفتار کر لیا گیا۔ جب انھوں نے حکام کو بتایا کہ میں وہ نہیں ہوں جس کا ہونے کا مجھ پر الزام لگا رہے ہیں تو انھیں ایک لوہے کے ڈنڈے سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ڈنڈا ان کی ٹانگوں پر اس قدر دبایا گیا کہ وہ بے ہوش ہو گئیں۔‘

‘اس کے بعد اس خاتون کو ایک اور حراستی مرکز بھیجا گیا جہاں ان کا دعویٰ ہے کہ ایک گارڈ نے انھیں کہا کہ میرے ساتھ سو گی تو میں آپ کو رہا کروا دوں گا۔‘

اس وکیل نے میانمار کے عدالتی نظام کو بالکل غیر شفاف قرار دیا جہاں ان جیسے وکیل کبھی کبھی بالکل بے بس ہوتے ہیں۔

‘ہم ان (گرفتاریوں اور تفتیشوں) کو چیلنج کرتے ہیں مگر ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ قانونی ہیں اور (تفتیش کاروں کو) احکام دیے گئے ہیں۔‘

اگرچہ سوئی مئی کی کہانی کی تصدیق کرنا ناممکن ہے لیکن بی بی سی نے دیگر خواتین قیدیوں سے بی بات کی ہے اور ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ انھیں تشدد اور جنسی ہراسانی کا سامنا رہا تھا۔

ایک خاتون کا کہنا تھا کہ انھوں نے ’مجھے تین انگلیوں والا سلوٹ (میانمار میں احتجاج کی علامت) ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک کیے رکھنے کو کہا اور ایک گارڈ مجھے ڈرانے کے لیے میرے بالوں سے کھیلتا رہا۔‘

ایک اور عورت کا کہنا تھا کہ اسے سیوی پی تھر کے علاقے میں ایک تفتیشی مرکز میں لے جایا گیا اور ‘وہاں لڑکیوں کو وہ کمرے سے باہر نکالتے تھے اور لڑکیاں جب واپس آتیں تو ان کے کپڑوں پر بٹن یا تو کھلے ہوتے یا پھر ٹوٹے ہوتے تھے۔‘

فیک نیوز

جب بی بی سی نے سوئی مئی کی کہانی کو میانمار میں نائب وزیر اطلاعات میجر جنرل راؤ من ٹن کے سامنے رکھا تو انھوں نے فوج کی جانب سے کسی بھی تشدد کے واقعے کی تردید کی اور کہا کہ یہ فیک نیوز ہے۔

اس سال کے آغاز میں ایک خاتون قیدی پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ان کا چہرہ پہچاننے کے قابل نہیں رہا تھا۔ یہ تصویر وائرل ہو گئی تھی۔

وہ آج بھی جیل میں ہیں اور انھیں غیر قانونی ہتھیار رکھنے کے الزامات کا سامنا ہے۔

جب بی بی سی نے میجر جنرل راؤ من ٹن سے پوچھا کہ انھوں نے قیدی کے زخم چھپائے کیوں نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے وقت ایسا ہو سکتا ہے، وہ بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور ’ہمیں انھیں پکڑنا ہوتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

قید تنہائی

یہ تشدد خفیہ تفتیشی مراکز تک محدود نہیں۔ سماجی کارکن مس لن نے بی بی سی کو بتایا کہ کیسے انھیں رنگون کے انسیان جیل میں 40 دن سے زیادہ قید تنہائی میں رکھا گیا۔

ان کے پاس اس جیل کے سیل میں اپنے کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ضروری ادویات بھی نہیں۔ حراست کے دوران وہ انتہائی کمزور ہو گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘میں اس اندھیرے کمرے میں پڑی ہوتی تھی اور سوچتی تھی کہ اب میں نے مر جانا ہے۔ کبھی مجھے قریب سیل سے رونے یا چیخنے کی آوازیں آتیں۔ مجھے یہی خیال آتا کہ کسے مارا جا رہا ہو گا؟‘

وہ یاد کرتی ہیں کہ ایک دن ایک مرد اہلکار کچھ زنانہ افسران کے ساتھ ان کے سیل میں داخل ہوا۔ وہ جب نکل رہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ ایک خاتون اہلکار ان کی ویڈیو بنا رہی تھیں۔ انھوں نے شکایت کی مگر وہ کہتی ہیں کہ یہ بےسود ہے۔

ہیومن رائٹس واچ میں میانمار پر کام کرنے والی مینی مانگ کے مطابق اکثر 100 قیدیوں کے لیے بنے جیل میں 500 خواتین کو رکھا جاتا ہے۔ انھیں سونے کے لیے باریاں لگانی پڑتی ہیں کیونکہ وہ سب ایک ساتھ نہیں سو سکتیں۔

‘انھیں بنیادی صفائی کی سہولیات بھی میسر نہیں جو ایک بنیادی حق ہے۔‘

سوئی مئی کو اکتوبر میں 5000 قیدیوں کے ساتھ ایک ایمنسٹی سکیم کے تحت رہا کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘میں جانتی ہوں کہ مجھے دوبارہ گرفتار کیا جا سکتا ہے اور اس میں وہ مر بھی سکتی ہیں مگر میں اپنے ملک کے لیے یہ کرنا چاہتی ہوں۔ اگرچہ میں محفوظ محسوس نہیں کرتی مگر میں اس تحریک کا حصہ بننا چاہتی ہوں۔‘