میلکم مکلین: وہ شخص جس نے شپنگ کنٹینر سے عالمی تجارت کو بدل دیا
آج بھی 90 فیصد بین الاقوامی تجارت سمندری راستے سے کی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش سے ٹی شرٹس، چلی سے تانبا، جاپان سے گاڑیاں، سپین سے ٹماٹر اور ہر وہ چیز جس کا آپ سوچ سکیں کارگو جہاز میں دھات کے بنے 20 ہزار ڈبوں میں سے کسی ایک میں سفر کرتی ہے۔
سٹیل کے ہر ڈبے میں پانچ لاکھ 48 ہزار کیلے، 55 فریج، 400 ٹی وی، 13 ہزار رم کی بوتلیں یا کوئی ایک گاڑی ہو سکتی ہے۔
کتاب ’دی باکس‘ کے مصنف، تاریخ دان اور ماہر معیشت مارک لیونسن کہتے ہیں کہ ’جس گلوبلائزیشن سے ہم آج واقف ہیں وہ کنٹینر کے بغیر ناممکن تھی۔‘
اپنی کتاب میں وہ بتاتے ہیں کہ کیسے یہ ایجاد بین الاقوامی تجارت کے پھیلاؤ کا باعث بنی۔
ہم نے پہلے کبھی شپنگ کنٹینر پر اتنا غور نہیں کیا۔ مگر رواں سال سمندری تجارت کے بحران کے دوران اس موضوع نے لوگوں کی توجہ حاصل کی جب ان کے استعمال میں آنے والی روزمرہ کی اشیا بندرگاہوں پر پھنسی ہوئی تھیں۔
یہ واضح ہے کہ ہماری جدید زندگی ان شپنگ کنٹینرز کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لیکن تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔
کنٹینر کے ساتھ پہلا کمرشل سفر اپریل 1956 میں طے کیا گیا۔ آئیڈیل ایکس نامی فوجی جہاز میں 58 کنٹینرز کو نیو جرسی سے ٹیکساس منتقل کیا گیا جہاں 58 ٹرک ان اشیا کو لے جانے کے منتظر تھے۔
اس سفر کے پیچھے میلکم مکلین کا ہاتھ تھا جنھوں نے جدید کنٹینرز کے ذریعے کمرشل شپنگ سسٹم کو تشکیل دیا۔
انھیں اب بھی مسٹر کنٹینر کہا جاتا ہے حالانکہ انھوں نے دھات کے ڈبے کے بجائے لاجسٹکس کا نظام ایجاد کیا تھا۔
اور پھر وہ ارب پتی بن گئے۔۔۔
انھیں یہ خیال کہاں سے آیا؟
مکلین سے قبل شمالی کیرولائنا میں زرعی کاروبار سے منسلک ٹرکنگ کمپنی کا ایک مالک، جو سنہ 1914 میں پیدا ہوا، کنٹینرز کو اپنے کاروبار کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اس وقت تک شپنگ میں بہت مشکلات تھیں۔
سنہ 1950 کی دہائی میں کسی بحری جہاز کو لوڈ اور ان لوڈ کرنا (یعنی اس پر سامان لادنا اور پھر سامان اتارنا) ہی بہت پیچیدہ عمل سمجھا جاتا تھا۔
اس وقت لوگ ہر چیز کو دوسری چیز کے اوپر رکھ دیتے تھے۔ مثلاً زیتون کے بیرل پر صابن کا ڈبہ اور یہ تمام چیزیں ایک لکڑی کے تخت کے اوپر۔
ان چیزوں کو رسی سے باندھ کر کارگو جہاز میں رکھ دیا جاتا تھا اور لوگ انھیں ایسے ترتیب دیتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ جگہ بنائی جاسکے۔ یہ کوشش بھی کی جاتی تھی کہ اونچی لہروں میں یہ سامان زیادہ نہ ہل سکے۔
اس دور میں کرین اور فورکلفٹ (سامان اٹھانے والی گاڑی) ہوا کرتی تھی مگر آخر میں زیادہ تر سامان مزدوروں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھانا پڑتا تھا۔
یہ مینو فیکچرنگ اور تعمیرات سے زیادہ خطرناک کام تھا۔ بڑی بندرگاہوں میں آئے دن کوئی شخص زخمی ہو جاتا تھا۔
کسی جہاز کو لوڈ اور ان لوڈ کرنے میں اس کے سمندری سفر جتنا وقت لگ جاتا تھا۔
کئی لوگوں کا خیال تھا کہ اس کام کا بہتر طریقہ ہو سکتا ہے۔ اور مکلین نے اس کا جواب ڈھونڈ نکالا۔ وہ زمین پر اشیا کی منتقلی کا کاروبار کرتے تھے۔
معاشی بحران گریٹ ڈپریشن کے دوران انھوں نے ایک ٹرک سے یہ کام شروع کیا تھا اور پھر سنہ 1950 کے وسط میں انھوں نے 1700 ٹرکوں پر مشتمل اپنی کمپنی فروخت کر دی تھی۔
مکلین کو یقین تھا کہ کنٹینرز کا استعمال ہی بین الاقوامی تجارت کا مستقبل ہے۔ مگر اس کے لیے انھیں مکمل لاجسٹکس کی چین بنانا تھی تاکہ یہ کاروباری ماڈل موثر ثابت ہو سکے۔ انھوں نے سب کو منایا کہ پرانے نظام کو تبدیل کرنے کا وقت آگیا ہے۔
پہلا چیلنج: سب کو کیسے رضامند کیا جائے؟
ابتدا میں ٹرکنگ کمپنیاں، سپنگ کمپنیاں اور بندرگاہیں کنٹینرز بنانے کے لیے ایک طے شدہ معیار پر اتفاق نہیں کر پا رہی تھیں۔
بندرگاہوں میں طاقتور یونینز بھی ہوا کرتی تھیں جنھوں نے اس خیال کو مسترد کیا کیونکہ اس سے مزدوروں کی نوکریاں خطرے میں پڑ سکتی تھیں۔
دوسری طرف امریکہ میں کارگو کی نگرانی کرنے والے حکام بھی موجودہ نظام کی حمایت کرتے تھے۔ انھوں نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ شپنگ کمپنیوں اور ٹرکنگ کمپنیوں سے کتنے کتنے پیسے وصول کرنے ہیں۔
یہاں ایسے سوالات پیدا ہوتے تھے کہ ان سے مارکیٹ کے مطابق پیسے کیوں نہیں لیے جاتے اور انھیں جوڑ کر ایک ہی رقم کیوں نہیں لی جاتی۔
تو شروع میں مکلین کے خیالات کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
مگر ان مشکلات کے باوجود مکلین نے ایسے کنٹینرز بنانے کا عمل جاری رکھا جنھیں جہاز کی ضروریات کے مطابق ڈھالا جاسکے اور تمام اشیا اٹھائے اسی کنٹینر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرک کی مدد سے منتقل کیا جا سکے۔
پھر ایک دن آیا جب انھیں اپنا سب سے بڑا کلائنٹ مل گیا، یعنی امریکی فوج۔
ویتنام کی جنگ
مکلین نے نظام میں خامی کا فائدہ اٹھایا اور ایک شپنگ کمپنی اور ٹرکنگ کمپنی کا کنٹرول سنبھال لیا۔ جب مزدوروں نے ہڑتال کا اعلان کیا تو انھوں نے پرانے جہازوں میں نئے کنٹینرز کی جگہ بنا دی۔
انھوں نے نیو یارک پورٹ اتھارٹی کو تجویز دی کہ شہر کے ایک کنارے کنٹینرز کی جگہ بنائی جائے۔ مگر سنہ 1960 میں انھوں نے سب سے اہم قدم اٹھایا جب انھوں نے شپنگ کنٹینرز کا آئیڈیا کو فوج کو بیچا۔
اس ایجاد کی صورت میں فوج کو ویتنام میں سامان بھیجنے کا حل مل گیا۔ شپنگ کنٹینر اسی وقت زیادہ موثر ثابت ہوئے جب انھیں لاجسٹکس کے نظام کا حصہ بنایا گیا۔ اسی لیے امریکی فوج ان کی بہترین صارف تھی۔
ویتنام سے واپسی پر میکلین کو اندازہ ہوا کہ ان کے جہاز جاپان سے بہت زیادہ سامان لاسکتے ہیں، جو اس وقت دنیا کی سب سے تیز بڑھتی ہوئی معیشت رکھتا تھا۔
تو اس طرح کاروبار کی دنیا میں ٹرانس پیسیفک تعلقات شروع ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے
ارتقا کی سات دہائیاں
یہ ایک ایسا تعلق تھا جس نے جنگ کے بعد عالمی تجارتی نظام کی بنیاد رکھی۔ آج میری ٹائم ٹرانسپورٹ کی تمام مینجمنٹ کمپیوٹرز کی مدد سے کی جاتی ہے جو عالمی لاجسٹکس کے نظام میں ہر کنٹینر کی نگرانی کرتے ہیں۔
کچھ کنٹینرز میں فریج کی طرح درجہ حرارت کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ انھیں جہاز کے درمیان میں رکھا جاتا ہے جہاں بجلی اور درجہ حرارت کی نگرانی کرنے والے مانیٹر ہوتے ہیں۔ جبکہ سب سے بھاری کنٹینرز کو سب سے نیچے رکھا جاتا ہے۔
اور کرین کی مدد سے جہاز کو کنٹینرز سے لوڈ اور ان لوڈ کیا جاتا ہے۔
بی بی سی کی سیریز ’50 تھنگز دیٹ میڈ دی ماڈرن اکانومی‘ کے مصنف ٹم ہارفورڈ کہتے ہیں کہ ’تمام افراد کو اس انقلاب کا فائدہ نہیں پہنچا۔‘
کم آمدن والے ممالک، جیسے بعض افریقی ملک، کی بندرگاہیں آج بھی سنہ 1950 کی دہائی کے نیو یارک جیسی ہیں۔ مگر ان ملکوں اور کچھ مقامات کے علاوہ اب دنیا میں کہیں بھی اشیا کو تیزی سے اور سستے داموں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔
ہارفورڈ کہتے ہیں کہ ’یہ بڑے پیمانے پر کنٹینرز کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔‘