تھائی لینڈ: مظاہرین کا خون سے احتجاج
تھائی لینڈ کے دار الحکومت بینکاک میں حکومت مخالف مظاہروں کے چوتھے روز سرخ پوش مظاہرین نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے سامنے خون سے احتجاج کیا ہے۔

مظاہرین نے اس مقصد کے لیے خون جمع کرنے کی مہم شروع کی تھی اور ہزاروں افراد نے اس کے لیے خون کا عطیہ دیا۔ منگل کو مظاہرین خون کی بوتلیں لے کر وزیر اعظم ہاؤس کی رہائش گاہ پہنچے جہاں حکام نے انہیں گیٹ پر خون کی بوتلیں بہانے کی اجازت دے دی تھی۔
احتجاجی ریلی کے ایک رہنما نے اس موقع پر کہا کہ ’جمہویت کے لیے اس جہد و جہد میں عوام کا خون ساتھ مل گیا ہے۔‘
احتجاج کے بعد حکام نے گیٹ کے باہر اس بہتے ہوئے خون کی فوراً صفائی کر وا دی۔
حکام نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر سکیورٹی بڑھا دی ہے اور وہ مظاہرین سے اس احتجاج کو ختم کرنے کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں۔
خیال تھا کہ حکام مظاہرین پر سختی کر کے یہ احتجاج رُکوانے والے تھے لیکن پھر مذاکرات کے ذریعے اس کے حدود طے کر دیے گئے ۔ مذاکرات کے بعد مظاہرین وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے باہر احیجاج ختم کرنے پر راضی ہو گئے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی اور مقام پر احتجاج کریں گے۔
تھائی وزیر اعظم ابھیسیت وِجے جیوا اور ان کا خاندان احتجاج کا سلسلہ شروع ہونے کے فوراً بعد اپنی رہائیش گاس سے فوجی کمپاؤنڈ منتقل ہو گئے تھے۔ ان کے خلاف اس احتجاجی مہم میں سابق وزیر اعظم تھاکسن شناواترا کے حامی شامل ہیں۔ تھاکسن شناواترا کی حکومت کو فوج نے سنہ دو ہزار چھ میں ختم کر دیا تھا اور فوج کو بادشاہ کی حمایت حاصل تھی۔ ان کو کئی مقدمات میں سزا سنا دی گئی اور وہ کئی برس سے جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
تھاکسن کے ’سُرخ پوش‘ حامی موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور وہ نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن وزیر اعظم اس مطالبے کو مسترد کر چکے ہیں۔ بادشاہ اور حکومت کے حامی ’زرد پوش‘ کہلاتے ہیں اور انہوں نے تھاکسن کی حکومت کی مخالفت کی تھی۔ زرد تھائی بادشاہ کا رنگ ہے۔