میرے دوست محمد علی نے کہا’ لکھتی رہو‘
دنیا کے لیے وہ ایک حیرت انگیز ایتھلیٹ اور انسان دوست تھے، لیکن میرے لیے وہ صرف میرے دوست علی تھے۔
٭ واک آف فیم کا واحد نام جو دیوار پر ہے
ان کا میری زندگی پر سب سے زیادہ اثر رہا ہے۔
جب میں دس سال کی تھی تو میں نے محمد علی کو پہلا خط لکھا۔
سبھی نے مجھے کہا کہ وہ کبھی جواب نہیں دیں گے لیکن خط لکھنے کے تین ہفتے کے بعد مجھے چیمپیئن کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط موصول ہوا۔
اس میں لکھا تھا: ’ڈیئر سٹیفنی، تمھارے پیارے خط کا شکریہ، میں امید کرتا ہوں کہ ایک دن تم سے ملوں گا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ پر رحمت کرے اور آپ کی رہنمائی کرے۔ محمد علی کی طرف سے پیار۔‘
میرا بچپن معمولی نہیں تھا۔
جب میں چار سال کی ہوئی تو میرے والد معذور ہو گئے اور جب زیادہ تر بچے باہرکھیلا کرتے تھے، میں اپنے والد کے ساتھ گھر بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہی ہوتی تھی۔
ہم علی کی لڑائی کی ویڈیوز دیکھتے۔
جب میں چھ سال کی عمر کو پہنچی تو میں ان سب لڑائیوں کی تفصیل بتا سکتی تھی جو علی نے لڑی تھیں۔
جب میں سکول گئی تو میرے دوست سپرمین کی باتیں کرتے تھے لیکن میں ہمیشہ انھیں نادان سمجھتی کیونکہ میرے پاس تو علی تھے۔
وہ میرے ذاتی سپر ہیرو تھے۔
میں نے انھیں اپنے رپورٹ کارڈ بھیجے اور انھیں اپنے سب سے گہرے راز بتائے۔
محمد علی نے بغیر کسی تامل کے ہمیشہ ہر خط کا جواب دیا اور میں کم از کم مہینے میں ایک خط انھیں ضرور بھیجتی تھی۔
میں انھیں ہمیشہ کہتی کہ ان سے ملنے کی میں کتنی خواہشمند ہوں اور وہ ہمیشہ لکھتے: ’میں بھی تمھیں ملنے کی امید کرتا ہوں، پلیز ممی اور ڈیڈی سے ہیلو کہو اور خدا آپ کی حفاظت کرے اور آپ پر رحمت بھیجے۔‘ اس کے بعد وہ اپنا کوئی مشہور مقولہ لکھ دیتے۔
ہماری قلمی دوستی کئی سال جاری رہی جب وہ پارکنسنز کی وجہ سے لکھنے کے قابل نہ رہے، پھر بھی میں انھیں کارڈز اور خط بھیجتی رہی۔
1992 میں جب میں کالج کی طالبہ تھی تو میں نے سنا کہ سیئٹل میں قریب ہی انھیں کسی اعزاز سے نوازا جا رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ انھیں ملنے کا موقع اب آخر کار آ گیا ہے۔
جس ہوٹل میں وہ ٹھہرے تھے میں اس کے باہر چلی گئی اور محافظوں کو بتایا کہ علی مجھے خط لکھتے ہیں۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ میرے خط انھیں دکھائیں۔
مجھے فوراً محمد علی کے ساتھ والی نشست تک لے جایا گیا، اس کے فوراً بعد علی نے مائیک ٹائسن کو کہا کہ میرے لیے اپنی کرسی خالی کر دیں۔
آخر کار میں اپنے ہیرو تک پہنچ ہی گئی تھی۔
وہ ان سب اچھی چیزوں کے حامل تھے جن کی آپ توقع کر سکتے تھے۔
اس وقت تک ان کی آواز مبہم ہو گئی تھی لیکن پھر بھی وہ حیرت انگیز تھی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ ہماری خط و کتابت میں وقفے کے دوران انھوں نے اپنا گھر تبدیل کر لیا تھا، لیکن انھوں نے ایک لفافے پر اپنا نیا پتہ مجھے لکھ کر دیا اور کہا کہ لکھتی رہو۔
میں انھیں مہینے میں ایک مرتبہ کوئی کارڈ یا خط بھیجتی اور وہ جو کہنا چاہتے کسی سے لکھوا کر مجھے بھیجتے یا ان کی بیوی لونی ان کے حوالے سے مجھے جواب لکھتیں۔
2014 میں انھوں نے میرے سارے خاندان کو اپنے گھر مدعو کیا، یہ اس لیے بھی خاص موقع تھا کیونکہ آخرکار میرے معذور والد بھی اب اپنے ہیرو کو مل سکتے تھے۔
میں نے انھیں بتایا کہ میں ان سے کتنا پیار کرتی ہوں اور اگرچہ وہ بول نہیں سکتے تھے لیکن ان کی آنکھوں میں چمک تھی اور انھوں نے میرا ہاتھ دبایا اور مجھے گلے لگا لیا۔
ہاں محمد علی مجھے پیار کرتے تھے۔ میں نے جیسا محسوس کیا، وہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔
لونی نے مجھے کہا کہ میں لکھتی رہوں کیونکہ بقول ان کے وہ میرے خطوط علی کو پڑھ کر سناتی تھی اور انھیں معلوم تھا کہ ان سے انھیں خوشی ملتی ہے۔
دنیا نے ایک عظیم ترین ایتھلیٹ، چیمپیئن اور انسان دوست کھو دیا ہے۔ لیکن میں اپنے سب سے اچھے دوست سے محروم ہو گئی ہوں۔
یہ سچ ہے جب انھوں نے کہا کہ وہ عظیم ترین ہیں۔ لیکن وہ اس سے بھی عظیم انسان تھے۔
سٹیفنی محمد علی کے جنازے میں شرکت کرنے کے لیے سیئٹل سے لوئی ول گئی ہیں۔