برطانیہ اپنی پوزیشن واضح کرے: یورپی یونین

یورپی یونین کے سربراہ ژاں کلود ینکر نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ یورپی یونین سے اپنی علیحدگی پر جلد از جلد ’اپنی پوزیشن واضح کرے۔‘
انھوں نے یورپی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ دوست رہے گا، لیکن اسے غیر یقینی صورت حال سے بچنے کے لیے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین کے رہنماؤں سے پہلی بار ملاقات کرنے والے ہیں۔
مسٹر ینکر نے کہا: ’جتنا جلد ممکن ہو ہمیں حالات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ابھی بھی میں اداس ہوں کیونکہ میں کوئی روبوٹ، سن رسیدہ بیوروکریٹ یا ٹیکنوکریٹ نہیں ہوں۔
’میں ایک یورپی ہوں اور مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ مجھے برطانیہ کے ریفرینڈم کے نتیجے پر افسوس ہے۔‘
برطانوی وزیر اعظم ریفرینڈم کے بعد کے مضمرات اور یورپی یونین کی برسلز میں ہونے والی سربراہی کانفرنس کے بارے میں بات کریں گے۔
دوسری جانب جرمنی، فرانس اور اٹلی کے سربراہوں نے سوموار کو کہا ہے کہ ’اس مرحلے پر برطانیہ کی علیحدگی پر کوئی رسمی یا غیر رسمی بات چیت نہیں ہو گی۔‘
دریں اثنا وزیر صحت جیرمی ہنٹ نے برطانیہ کی علیحدگی کی شرائط پر دوسرا ریفرینڈم کرانے کی بات کہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ علیحدگی کے لیے آئندہ انتخابات سے تھوڑے دن قبل تک تاخیر کی جا سکتی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ تاخیر کم سے کم 2022 تک ہو گی۔
وہ پہلے وزیر کابینہ ہیں جنھوں نے عوامی طور پر یہ بات کہی ہے۔ مسٹر ہنٹ نے، جو مسٹر کیمرون کی جگہ سربراہی کے لیے میدان میں اترنے والے ہیں، کہا ہے کہ برطانیہ کو یورپی یونین کی سنگل مارکٹ میں ضرور رہنا چاہیے۔
انھوں نے ’ناروے پلس‘ کا تصور پیش کیا جو یورپی یونین سے باہر ایک سسٹم ہے جس کے تحت برطانیہ یورپی یونین کے مکمل رکن کے طور پر جاری تجارتی فوائد حاصل کرے گا اور اس کے ساتھ پناہ گزینوں کے نئے ضوابط پر بات چیت کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کے متعلق برطانیہ کی عوام کے خدشات کا ازالہ ضروری ہے اور یہ یورپی یونین کے مفاد میں بھی ہے کیونکہ تمام رکن ممالک کے شہریوں کا ایک دوسرے ملک میں رہنے اور کام کرنے کے حالیہ حق پر غور کرنے سے قبل اس کے ’ٹوٹنے کا خطرہ‘ تھا۔
دوسری جانب منگل کو چانسلر جارج اوزبورن نے وزیر اعظم کی جگہ لینے والوں سے خود کو علیحدہ کر لیا ہے۔
انھوں نے ٹائمز اخبار کو بتایا کہ انھوں نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے لیے بہت کوشش کی اور ریفرینڈم کے نتیجے کو قبول کیا تاہم ’میں وہ شخص نہیں جو اس وقت پارٹی کو درکار اتحاد فراہم کرا سکے۔‘